ایران، ترکی اور روس کے اعلیٰ سفارت کاروں نے ہفتے کے روز قطر میں ملاقات کی ہے جس میں شام کے معاملے پرتبادلہ خیال کیا گیا ہے جہاں مسلح باغی گروہوں نے برق رفتارحملوں کے بعد ملک کے کچھ حصوں پر قبضہ کر لیا ہے۔

دوحہ میں اپنے روسی اور ترک ہم منصبوں سرگئی لاوروف اور ہاکان فدان کے ساتھ بات چیت کے بعد ایرانی وزیر خارجہ عباس اراغچی نے کہا کہ فریقین نے ”شامی حکومت اور حزب اختلاف کے مجاز گروہوں کے درمیان سیاسی مکالمے کے آغاز“ پر اتفاق کیا ہے۔

یہ تینوں ممالک 2017 سے شام میں سیاسی تصفیے کے لیے نام نہاد آستانہ طرز کے مذاکرات میں شامل ہیں۔

تاہم شام کے صدر بشار الاسد کی مخالف باغی قوتوں کی جانب سے تیزی سے کامیابیوں کے بعد حالیہ دنوں میں ملک کی صورت حال ڈرامائی طور پر تبدیل ہوئی ہے۔

ہفتے کے روز نئی کارروائی شروع کرنے والے اتحاد کے ایک کمانڈر نے کہا تھا کہ ’ہماری افواج نے دارالحکومت کا محاصرہ کرنے کے آخری مرحلے کا آغاز کر دیا ہے‘، تاہم شام کی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ ’ان خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے کہ فوج دمشق کے قریب اپنے ٹھکانوں سے پیچھے ہٹ گئی ہے۔‘

ملاقات سے قبل ایرانی وزیر خارجہ عباس اراغچی نے کہا کہ انہوں نے اپنے ترک ہم منصب اور قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی کے ساتھ ”بہت واضح اور براہ راست“ بات چیت کی ہے۔

ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان جنہوں نے اس ہفتے بشار الاسد پر زور دیا تھا کہ وہ ’اپنے لوگوں کے ساتھ مصالحت‘ کریں، نے جمعے کے روز کہا تھا کہ ’انہیں امید ہے کہ باغیوں کی پیش قدمی بغیر کسی حادثے کے جاری رہے گی‘۔

واضح رہے کہ قطر نے 2011 میں شام کی خانہ جنگی کے آغازپر باغیوں کی حمایت کی تھی لیکن اب وہ اس تنازع کو مذاکرات کے ذریعے ختم کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔

حیات تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) گروپ کی سربراہی میں 27 نومبر کو باغیوں کے اتحاد نے ادلب میں اپنے مضبوط گڑھ سے حملہ شروع کیا جس میں درجنوں علاقوں اور حلب اور حما سمیت دیگر اسٹریٹجک شہروں پر قبضہ کرلیا گیا۔

ایرانی وزیر خارجہ عباس اراغچی نے جمعے کے روز بغداد میں اپنے عراقی اور شامی ہم منصبوں کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ شام میں کارروائی پورے مشرق وسطیٰ کے لیے ’خطرہ‘ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ خطرہ صرف شام تک محدود نہیں رہے گا اور اس سے شام کے ہمسایہ ممالک جیسے عراق، اردن اور ترکی متاثر ہوں گے۔

Comments

200 حروف