حلب شامی حکومت کے کنٹرول سے نکل گیا، مانیٹرگروپ
باغیوں کی جانب سے اچانک پیش قدمی کے بعد شام کا دوسرا سب سے بڑا شہر حلب ایک دہائی سے زائد عرصہ قبل شروع ہونے والی لڑائی کے بعد پہلی بار حکومت کے کنٹرول سے نکل گیا ہے۔ یہ بات جنگ کے ایک مانیٹر گروپ نے بتائی ہے۔
باغیوں کے اتحاد نے ایرانی اور روسی حمایت یافتہ شامی حکومت کی افواج کے خلاف بھرپور کارروائی بدھ سے شروع کی ہے جبکہ اس روز ہمسایہ ملک لبنان میں اسرائیل اور ایران کے حمایت یافتہ حزب اللہ گروپ کے درمیان دو ماہ کی لڑائی کے بعد جنگ بندی عمل میں آئی تھی۔
روسی فضائیہ کی مدد سے شامی فوج نے 2016 میں باغیوں کے زیر قبضہ حلب، جو اپنے اہم قلعوں کے لئے مشہور ہے، کے علاقوں پر دوبارہ قبضہ کر لیا تھا۔
دمشق انتظامیہ کی جانب سے 2011 میں مظاہرین کو کچلنے کے بعد شروع ہونے والی جنگ میں باغیوں سے شام کے بڑے حصوں کو واپس حاصل کرنے کے لیے حزب اللہ کے جنگجوؤں پر بھی انحصار کیا۔ تاہم حزب اللہ کو اسرائیل کے ساتھ اپنی لڑائی میں بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا۔
برطانیہ میں قائم سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے سربراہ رامی عبدالرحمٰن نے اے ایف پی کو بتایا کہ جہادی گروہ حیات تحریر الشام اپنے اتحادی باغی دھڑے کرد فورسز کے زیر قبضے علاقے چھوڑ کر بقیہ حلب شہر کو کنٹرول کرتے ہیں۔
عبدالرحمٰن نے کہا کہ جنگ شروع ہونے کے بعد پہلی بار حلب شہر شامی افواج کے کنٹرول سے نکل گیا ہے۔
حلب کے اندر کئی شمالی اضلاع میں زیادہ تر شامی کرد آباد ہیں جو پیپلز پروٹیکشن یونٹس (وائی پی جی) کے ماتحت ہیں جو شامی ڈیموکریٹک فورسز کا اہم حصہ ہے۔
شمال مشرقی شام کے نیم خود مختار کرد علاقے میں ایس ڈی ایف اصل فوج ہے۔ یہ امریکی حمایت یافتہ فورس ہے جس نے 2019 میں شام میں داعش کی علاقائی شکست سے قبل اس کے جہادیوں کے خلاف لڑائی کی قیادت کی تھی۔
آبزرویٹری کا کہنا ہے کہ حیات تحریر الشام اور اس کے اتحادی باغی دھڑوں نے حلب کے بیشتر علاقوں پر قبضہ کرنے کے بعد ہفتے کے روز حلب کے ہوائی اڈے اور درجنوں قریبی قصبوں پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔
ٹینکوں پر قبضہ
دمشق کے اتحادی ماسکو نے 2016 کے بعد حلب پر پہلا فضائی حملہ کیا ہے۔
اس حملے سے قبل القاعدہ کی سابقہ شامی شاخ کی سربراہی میں ایچ ٹی ایس نے پہلے ہی شام کے شمال مغربی علاقے میں صدر بشار الاسد کی حکومت کے کنٹرول سے باہر آخری علاقے ادلب پر قبضہ حاصل کر لیا تھا۔
ایچ ٹی ایس نے ہمسایہ حلب، حما اور لطقیہ صوبوں کے کچھ حصوں پر بھی قبضہ کر رکھا ہے۔ اتحادی ترک حمایت یافتہ باغی دھڑے بھی اس کارروائی میں حصہ لے رہے ہیں۔
آبزرویٹری کے مطابق اس لڑائی میں اب تک 370 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں سے زیادہ تر جنگجو ہیں لیکن ان میں کم از کم 48 عام شہری بھی شامل ہیں۔
آبزرویٹری کا کہنا ہے کہ باغیوں کی پیش قدمی بہت کم مزاحمت کے ساتھ ہوئی۔
اے ایف نے اپنی تصاویر میں جنگجوؤں کو قبضے میں لیے گئے ٹینکوں کے ساتھ دکھایا ہے۔
آبزرویٹری نے اتوار کے روز کہا کہ فوج نے حلب سے تقریبا 230 کلومیٹر جنوب میں شام کے چوتھے سب سے بڑے شہر حما کے اطراف اپنی پوزیشنیں مضبوط کی ہیں اورآس پاس کے صوبے کے شمال میں کمک بھیجی ہے۔
شام کی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ صوبہ حما میں فوجی یونٹوں نے باغیوں کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے مختلف ذرائع سے اپنی دفاعی لائنوں کومضبوط کیا ہے۔
آبزرویٹری کا کہنا ہے کہ باغیوں نے حلب اور حما کے درمیان واقع خان شیخون اورماریت النعمان سمیت شمال کے درجنوں قصبوں پر قبضہ کر لیا ہے۔
گاڑی کے پاس مٹھائیاں تھامے ہوئے خالد الیوسف نامی شخص نے کہا کہ کل میری شادی تھی لیکن میں نے مٹھائیاں تقسیم نہیں کیں، میں انہیں آج معارف النعمان کی آزادی کے جشن میں تقسیم کر رہا ہوں۔
’کمزور‘ حکومت
اتوار کو سامنے آنے والی اے ایف پی کی تصاویر میں دکھایا گیا کہ اسپتال میں لاشیں پڑی تھیں جبکہ سڑکوں پر سوختہ گاڑیاں بھی کھڑی تھیں جن کے بارے میں آبزرویٹری کا کہناہے کہ یہ سب کچھ روسی فضائی حملوں کے نتیجے میں ہوا ہے۔
ہفتے کے روز حلب میں بھی فضائی حملے ہوئے جہاں اے ایف پی کے ایک فوٹوگرافر نے جلی ہوئی کاریں دیکھیں جن میں ایک منی بس بھی شامل تھی۔ ایک گاڑی کے اندر ایک خاتون کی لاش پچھلی سیٹ پر پڑی ہوئی تھی اور اس کے قریب ایک ہینڈ بھی پڑا تھا۔
امریکہ میں قائم فارن پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے صدر ایرون اسٹین کا کہنا ہے کہ روس کی موجودگی کافی کم ہوگئی ہے اور فوری ردعمل والے فضائی حملوں کی افادیت محدود ہے۔
روسی فضائی حملے شام کے دوسرے بڑے شہر حلب کے کچھ حصوں پر 2016 کے بعد پہلی بار کیے گئے ہیں۔
امریکی تحقیقاتی ادارہ فارن پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے صدر ایروِن اسٹائن نے کہا کہ روس کی موجودگی کافی حد تک کم ہو گئی ہے اور اس فوری ردعمل کے طور پر کیے گئے اس کے فضائی حملے بھی زیادہ مؤثر ثابت نہیں ہورہے۔
انہوں نے کہا کہ باغیوں کی پیش قدمی اس بات کی نشاندہی ہے کہ حکومت کتنی کمزور ہوچکی ہے۔
ایک اور تجزیہ کار ڈیرین خلیفہ جو انٹرنیشنل کرائسس گروپ تھنک ٹینک سے تعلق رکھتے ہیں، نے کہا کہ باغی اتحاد اپنے اقدامات کو ”ایک وسیع تر علاقائی اور جیو اسٹریٹجک تبدیلی“ کے طور پر دیکھتے ہیں جس میں ایرانیوں کو کمزور کرنا بھی شامل ہے۔
امریکہ کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان شان سویٹ نے کہا ہے کہ شام کا روس اور ایران پر انحصار اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے 2015 میں طے شدہ امن عمل کو آگے بڑھانے سے انکار نے ایسے حالات پیدا کر دیے ہیں جو اب سامنے آرہے ہیں۔
امریکہ نے شام کے شمال مشرق میں جہادیوں کے خلاف اتحاد کے حصے کے طور پر سینکڑوں فوجیوں کو تعینات کر رکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ باغیوں کی پیش قدمی اس بات کی یاد دلاتی ہے کہ حکومت کتنی کمزور ہے۔
سفارت کاری
ایران کے اعلیٰ سفارت کار وزیر خارجہ عباس عرقچی تہران سے دمشق روانہ ہو گئے ہیں، سرکاری میڈیا کے مطابق اس کا مقصد شامی حکومت اور مسلح افواج کو حمایت کا پیغام دینا ہے۔
عرقچی نے ایک بار پھر باغیوں کے اس اچانک حملے کو امریکہ اور اسرائیل کی سازش قرار دیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ شامی فوج ایک بار پھرکامیاب ہوگی۔
بشار الاسد نے عزم ظاہر کیا ہے کہ دہشتگردوں کے حملے چاہے جتنے بھی بڑے ہوں انہیں شکست دی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی صرف طاقت کی زبان سمجھتی ہے اور یہی وہ زبان ہے جس سے ہم اسے ختم کریں گے چاہے اس کے حامی اور اسپانسر کوئی بھی ہوں۔
روس، جس کی فضائی مدد پہلے شامی حکومت کو کھوئے ہوئے علاقوں پر دوبارہ کنٹرول دلانے میں فیصلہ کن تھی، نے ایران کے ساتھ مل کر اپنے اتحادی کے نقصانات پر ”شدید تشویش“ کا اظہار کیا ہے۔
روسی وزارت خارجہ نے اپنے اعلیٰ سفارت کار سرگئی لاروف اور عرقچی کے درمیان ہونے والی بات چیت کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس ملاقات میں شام کی عرب جمہوریہ کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے لیے مضبوط حمایت کا اعادہ کیا گیا ہے۔
2020 کے بعد سے باغیوں کے زیر کنٹرول علاقے ادلب سے متعلق ترکیہ اور روس کی ثالثی میں جنگ بندی کا ایک معاہدہ طے پایا تھا تاہم یہ بارہا خلاف ورزیوں کے باوجود قائم رہا۔
ماسکو نے کہا کہ لاروف نے ہفتے کے روز اپنے ترک ہم منصب ہاکان فدان سے بھی بات کی اور صورتحال کو مستحکم کرنے کے لئے مشترکہ کارروائی کو مربوط کرنے کی ضرورت پر اتفاق کیا۔
Comments