افغانستان کی طالبان حکومت نے بدھ کے روز کہا ہے کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی انتخابات میں کامیابی کے بعد امریکہ کے ساتھ تعلقات میں ایک ’نئے باب‘ کی امید کر رہی ہے۔
وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ حکومت کو امید ہے کہ مستقبل کی ٹرمپ انتظامیہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں ٹھوس پیش رفت کے لیے حقیقت پسندانہ اقدامات کرے گی اور دونوں ممالک تعلقات کا ایک نیا باب کھولنے میں کامیاب ہوں گے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ سابق صدر ٹرمپ کی پہلی مدت اقتدار کے دوران انہوں نے طالبان کے ساتھ امن معاہدے کی صدارت کی تھی جس نے 2021 میں امریکی انخلا کی راہ ہموار کی تھی جس کے بعد 20 سالہ قبضہ ختم ہوا۔
دوحہ معاہدے پر 29 فروری 2020 کو خلیجی ریاست قطر میں ٹرمپ کے دور میں طالبان اور امریکہ کے درمیان دستخط کیے گئے تھے لیکن اس میں افغانستان کی اس وقت کی حکمراں حکومت کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔
ریپبلکن ارکان نے ٹرمپ کے جانشین موجودہ صدر جو بائیڈن کو انخلا کے دوران افراتفری کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے، جس میں کابل ہوائی اڈے پر خودکش بم دھماکے میں 13 امریکی فوجی ہلاک ہو گئے تھے اور طالبان کی جانب سے دارالحکومت پر فوری طور پر دوبارہ قبضہ کر لیا گیا تھا۔
بائیڈن کو اس بات پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے کہ انہوں نے طالبان کو کابل میں عسکریت پسندوں اور حکومت کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے جیسی شرائط پر عمل کیے بغیر دوحہ میں طے پانے والے انخلا کو آگے بڑھایا۔
ٹرمپ نے افغانستان سے انخلا کے حوالے سے بائیڈن کے طریقہ کار پر تنقید کو اپنے انتخابی مہم کا اہم نقطہ بنایا، جو ڈیموکریٹک امیدوار نائب صدر کمیلا ہیریس کے خلاف تھی۔
امریکی انخلا کے بعد طاقت کے ذریعے اقتدار میں آنے والی طالبان حکومت کو اب تک کسی بھی ملک نے باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔
تسلیم کیے جانے میں ایک بڑی رکاوٹ خواتین پر عائد پابندیاں رہی ہیں، جن میں تعلیم اور کئی ملازمتوں تک رسائی شامل ہے، جسے اقوام متحدہ نے صنفی امتیاز قرار دیا ہے۔ طالبان کے تاریخی گڑھ قندھار میں انفارمیشن اینڈ کلچر ڈپارٹمنٹ کے سربراہ انعام اللہ سمنگانی نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہاکہ امریکی اپنے عظیم ملک کی قیادت کسی خاتون کے حوالے کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
کابل میں پارلیمنٹ کی ایک سابق رکن فوزیہ کوفی نے ٹرمپ کو مبارکباد دی لیکن امریکی انخلا اور خواتین کے حقوق کے حوالے سے طالبان حکومت پر دباؤ نہ ڈالنے پر تنقید کی۔
انہوں نے کہا کہ ایک تاجر کی حیثیت سے ٹرمپ کو یہ سمجھنا چاہیے کہ کوئی بھی قوم اپنی آدھی آبادی کو کام کرنے اور تعلیم حاصل کرنے کے حق سے محروم کرکے طویل مدتی ترقی نہیں کر سکتی۔
Comments