اسرائیل نے اقوام متحدہ کو باضابطہ طور پر مطلع کیا ہے کہ وہ 1967 سے فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی امدادی تنظیم انروا (یو این آر ڈبلیو اے)کے ساتھ اپنے تعلقات کو ریگولیٹ کرنے والے معاہدے کو منسوخ کررہا ہے۔

گزشتہ ماہ اسرائیلی پارلیمنٹ نے انروا کو اسرائیل میں کام کرنے سے روکنے اور اسرائیلی حکام کو اس تنظیم کے ساتھ تعاون کرنے سے روکنے کے لیے قانون منظور کیا تھا جو مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ میں لاکھوں فلسطینیوں کو امداد اور تعلیم کی خدمات فراہم کرتی ہے۔

اسرائیل نے ہمیشہ انروا پر تنقید کی ہے، جسے 1948 کی جنگ کے بعد قائم کیا گیا تھا۔

اسرائیل نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ غزہ کی جنگ کے آغاز سے، انروا کی تنظیم میں حماس کی مداخلت ہے اور اس کے کچھ عملے پر 7 اکتوبر کو اسرائیل پر ہونے والے حملے میں حصہ لینے کا الزام عائد کیا۔

اس قانون سازی نے اقوام متحدہ اور اسرائیل کے کچھ مغربی اتحادیوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے جنہیں خدشہ ہے کہ اس سے غزہ میں پہلے سے ہی سنگین انسانی صورتحال مزید خراب ہو جائے گی، جہاں اسرائیل ایک سال سے حماس کے خلاف لڑ رہا ہے۔ اس پابندی کا تعلق فلسطینی علاقوں یا کسی اور جگہ کارروائیوں سے نہیں ہے۔

اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر ڈینی ڈینن نے ایک بیان میں کہا کہ ”ہم نے اقوام متحدہ کو پیش کیے گئے بھاری شواہد کے باوجود کہ حماس نے کس طرح انروا میں دراندازی کی، اقوام متحدہ نے اس حقیقت کو حل کرنے کے لئے کچھ نہیں کیا“۔

یہ قانون مغربی کنارے اور غزہ میں انروا کی کارروائیوں کو براہ راست غیر قانونی قرار نہیں دیتی ، جو دونوں بین الاقوامی قانون کے مطابق اسرائیل کی ریاست سے باہر لیکن اسرائیلی قبضے کے تحت سمجھی جاتی ہیں۔

لیکن اس سے ان علاقوں میں کام کرنے کی ان کی صلاحیت بری طرح متاثر ہوگی ۔ امدادی گروپوں اور اسرائیل کے بہت سے شراکت داروں میں گہری تشویش پائی جاتی ہے۔

اسرائیلی وزارت خارجہ نے کہا کہ دیگر بین الاقوامی تنظیموں کی سرگرمیوں میں توسیع کی جائے گی اور ”یو این آر ڈبلیو اے کے ساتھ رابطے کو ختم کرنے اورانروا کے متبادل کو فروغ دینے کی تیاری کی جائے گی“۔

Comments

200 حروف