بنگلہ دیش کے صدر محمد شہاب الدین کو بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ اگست میں مطلق العنان سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کا تختہ الٹنے والے انقلاب کے رہنماؤں کے سامنے استعفیٰ دے دیں۔
74 سالہ شہاب الدین، جنہیں ’چپو‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، کو 2023 میں حسینہ واجد کی معزول عوامی لیگ نے پارلیمنٹ کے ذریعے منتخب کیا تھا، لیکن اگرچہ یہ عہدہ زیادہ تر رسمی ہے، لیکن ان کی ممکنہ برطرفی نے آئینی خلا کے خدشات کو جنم دیا ہے۔
حسینہ واجد کی جگہ لینے والی عبوری حکومت کے پریس ایڈوائزر شفیق العالم نے پیر کے روز کہا کہ صدر کو ہٹانے سے متعلق کوئی بھی فیصلہ سیاسی اتفاق رائے کی بنیاد پر کیا جائے گا۔
عبوری حکومت کی قیادت نوبل امن انعام یافتہ محمد یونس کر رہے ہیں اور وہ اس کے ’چیف ایڈوائزر‘ ہیں۔
یونس کی کابینہ میں شامل حکومتی ترجمان سیدہ رضوانہ حسن نے کہا کہ شہاب الدین کو ہٹانے کے حوالے سے بات چیت جاری ہے۔
رضوانہ حسن نے اتوار کے روز نامہ نگاروں کو بتایا، “اس بات پر غور کیا جانا چاہیے کہ آیا انقلاب کے بعد بننے والی حکومت کو ایک ایسے صدر کو برقرار رکھنا چاہیے جسے فاشسٹ حکومت نے منتخب کیا ہو۔
ان کی برطرفی کا مطالبہ ان دعوئوں کی وجہ سے کیا گیا ہے کہ وہ تحریک کی روح سے مطابقت نہیں رکھتے۔
اس ماہ کے شروع میں شہاب الدین کو اس وقت شدید احتجاج کا سامنا کرنا پڑا جب انہوں نے کہا کہ انہوں نے کبھی حسینہ کا استعفیٰ نہیں دیکھا – اس امکان کو بڑھاتے ہوئے کہ ان کی رخصتی غیر قانونی تھی۔
اس کے فورا بعد، یونس کی حکومت میں خدمات انجام دینے والے ایک طالب علم احتجاجی رہنما آصف نذرل نے الزام عائد کیا کہ یہ تبصرہ ”ان کے عہدے کے حلف کی خلاف ورزی“ ہے۔
گزشتہ ہفتے صدارتی احاطے میں گھسنے کی کوشش کرنے والے سیکڑوں افراد کے ہجوم کے ساتھ پولیس کی جھڑپیں ہوئیں جس کے نتیجے میں 30 پولیس اہلکار اور مظاہرین زخمی ہو گئے تھے۔
Comments