نیپال کے سیلاب زدہ دارالحکومت کے رہائشی اتوار کے روز اپنے مٹی سے بھرے گھروں کو واپس لوٹے تاکہ تباہ کن سیلاب کے نتیجے میں تباہ اپنے مکانات کے ملبے کا جائزہ لے سکیں جس کے نتیجے میں کم از کم 148 ہلاک ہوئے ہیں۔

مون سون موسم کے دوران جون سے ستمبر تک جنوبی ایشیا میں بارش کے بعد سیلاب اور مٹی کے تودے گرنا عام ہیں لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی ان واقعات کی شدت اور تعداد میں اضافہ کر رہی ہے۔

گزشتہ ہفتے کے اختتام پر کٹھمنڈو کے رہائشی علاقے زیر آب آگئے جبکہ درالحکومت سے گزرنے والے دریاؤں میں اچانک آنے والے سیلاب کی اطلاعات تھیں اور شہر کو نیپال کے باقی حصوں سے ملانے والی شاہراہوں کو بھی شدید نقصان پہنچا۔

کمار تمانگ، جو دریا کے کنارے ایک کچی آبادی میں رہتے ہیں، نے اے ایف پی کو بتایا کہ ہفتے کی شب آدھی رات کے بعد انہیں اور ان کے خاندان کو اپنا گھر چھوڑ کر بھاگنا پڑا کیوں کہ پانی ان کے گھر میں داخل ہو گیا۔

انہوں نے کہا کہ آج صبح ہم واپس آئے اور سب کچھ مختلف نظر آ رہا ہے۔

40 سالہ شخص نے کہا کہ ہم اپنے گھر کے دروازے بھی نہیں کھول سکتے تھے، یہ کیچڑ سے بھرے ہوے تھے، کل ہمیں ڈر تھا کہ سیلاب سے ہم مرجائیں گے لیکن اب صفائی کیلئے ہمارے پاس پانی تک دستیاب نہیں۔

نیپال کی نیشنل ڈیزاسٹر رسک ریڈکشن اینڈ مینجمنٹ اتھارٹی کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں 148 افراد ہلاک ہوئے جبکہ 59 افراد اب بھی لاپتہ ہیں۔

وزارت داخلہ کے ترجمان رشی رام تیواری نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ بلڈوزر کا استعمال کئی شاہراہوں کو صاف کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے جو ملبے کی وجہ سے بند ہیں جس کی وجہ سے کھٹمنڈو کا ملک کے باقی حصوں سے رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ 3،000 سے زیادہ لوگوں کو بچایا گیا ہے۔

نیپال کے محکمہ موسمیات نے کٹھمنڈو پوسٹ اخبار کو بتایا کہ وادی، جہاں دارالحکومت واقع ہے، میں ہفتے کی صبح تک 24 گھنٹوں کے دوران 240 ملی میٹر (9.4 انچ) بارش ریکارڈ کی گئی۔

رپورٹ کے مطابق یہ کم از کم 1970 کے بعد کٹھمنڈو میں ریکارڈ کی جانے والی سب سے زیادہ بارش تھی۔

سینے تک گہرا پانی

کھٹمنڈو سے گزرنے والی باگمتی ندی اور اس کی متعدد معاون ندیوں کے کنارے ٹوٹ گئے جس سے قریبی مکانات اور گاڑیاں پانی میں ڈوب گئیں۔

رہائشیوں کو اونچے مقام تک پہنچنے کے لئے سینے تک گہرے پانی میں جدوجہد کرنا پڑی۔

کٹھمنڈو کے ایک اور زیر آب علاقے میں رہنے والے بشنو مایا شریشٹھ نے بتایا کہ انہیں بچنے کے لیے اپنے گھروں کی چھت توڑنی پڑی۔

شریشتا نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ہم نے ایک چھت سے دوسری چھت پر چھلانگ لگا کر محفوظ مقام حاصل کیا اور آخر کار وہ ہمیں بچانے کے لیے کشتیاں ساتھ لائے۔

ہیلی کاپٹروں اور موٹر بوٹس کے ذریعے امدادی کارروائیوں میں مدد کے لیے تین ہزار سے زائد سکیورٹی اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔

ریسکیو ٹیمیں زندہ بچ جانے والوں کو محفوظ مقام تک پہنچانے کے لیے کشتیوں کا استعمال کر رہی ہیں۔

اتوار کی صبح تک کھٹمنڈو کے اندر اور باہر اندرون ملک پروازیں بحال ہو گئیں کیونکہ خراب موسم کے سبب جمعہ کی شام سے پروازیں مکمل طور پر روک دی گئی تھیں اور 150 سے زائد پروازیں منسوخ کی گئی تھیں۔

جنوبی ایشیا کی سالانہ بارشوں میں 70 سے 80 فیصد صرف موسم گرما کے مون سون میں برستی ہیں۔

جون سے ستمبر تک مون سون کی بارشیں ہر سال پورے جنوبی ایشیا میں بڑے پیمانے پر اموات اور تباہی لاتی ہیں، لیکن حالیہ برسوں میں مہلک سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ آب و ہوا کی تبدیلی نے ان کی فریکوئنسی اور شدت کو مزید خراب کر دیا ہے۔

جولائی میں چتوان ضلع میں لینڈ سلائیڈنگ کے نتیجے میں 59 مسافروں کو لے جانے والی دو بسیں ندی میں گر گئی تھیں۔

تین افراد زندہ بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے لیکن حکام حادثے کے مقام سے صرف 20 لاشیں نکالنے میں کامیاب رہے۔

نیپال میں اس سال بارش سے متعلق آفات میں 260 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

Comments

200 حروف