آپ جانتے ہیں کہ غزہ کی نسل کشی پر تمام شور شرابے اور بین الاقوامی میڈیا کو ہائی جیک کیے جانے کے درمیان آپ درست صحافیوں کی پیروی کررہے ہیں جب جنگ کے بارے میں ان کے اندازے بار بار درست ثابت ہورہے ہیں ۔

اپریل میں میزائل اور ڈرون حملوں کے فوری خاتمے کے بعد عرب میڈیا کے پرانے دوستوں نے مجھے بتایا کہ نیتن یاہو شاید اب بھی کشیدگی میں اضافہ کریں گے، شاید اگلی بار ایران کے اندر بھی حملہ کریں گے۔ انہیں جنگ کی ضرورت ہے، مختصر یہ کہ انہیں براہ راست امریکی مداخلت کی ضرورت ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم نے تہران کے قلب میں حملہ کرتے ہوئے بالکل یہی کیا— اسماعیل ہنیہ کو پاسداران کے ایک مہمان خانے میں قتل کرکے زخموں میں مزید اضافہ کیا— اور جوبائیڈن کو یو ایس ایس ابراہم لنکن اور تھیوڈور روزویلٹ کو خلیج میں ’اپنے دوست اور اتحادی‘ کی حفاظت کے لیے بھیجنے پر مجبور کردیا۔

لیکن ایران نے جوابی کارروائی کم ازکم اب تک نہیں کی جس کی وجہ سے جنگ مزید نہیں پھیلی۔

مجھے یہ بات کل ہی یاد آئی جب بلومبرگ نے سرخی لگائی کہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ شمال کی طرف رہائشیوں کی واپسی اب ایک جنگی ہدف ہے۔ الجلیل کا علاقہ تقریبا ایک سال سے ویران پڑا ہے۔ حزب اللہ کی جانب سے فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے فائر کیے گئے راکٹ اور ڈرون کے سبب ہزاروں شہریوں کا انخلا ہوا اور انہیں ہوٹلوں میں رہائش فراہم کی گئی۔

اس کی وجہ سے بالخصوص شمال میں معیشت تباہ ہوگئی۔ جنگ سے متعلق تمام چیزوں پر معمول کی خاموشی کے باوجود کابینہ کے بجٹ میں جھگڑے کی خبریں میڈیا تک پہنچنے سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ حالیہ دنوں میں بے گھر ہونے والے افراد ہفتہ وار ریکارڈ احتجاجی مظاہروں میں شامل ہوئے اور انہوں نے اسرائیلی وزیر اعظم سے برطرفی کا مطالبہ کیا جس سے اب ان کے لیے اقتدار پر برقرار رہنا، بدعنوانی کے مقدمات اور ممکنہ جیل کی سزا سے بچنا پہلے سے زیادہ اہم ہو گیا ہے اور یہ سارے عوامل ان کی استثنیٰ ختم ہونے کا انتظار کررہے ہیں۔

بلومبرگ کی رپورٹ کے ایک دن بعد نیتن یاہو نے جنوبی بیروت میں پیجر دھماکوں کی اجازت دی جو عالمی میڈیا کو حیران کر گئے لیکن حزب اللہ کے لیے اس کا اندازہ لگانے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ حماس اور پی ایل او کی طرح لبنانی ملیشیا نے بھی جاسوسی اور تخریب کاری میں اسرائیل کی حیرت انگیز پیش رفت کی قیمت خون اور آنسوؤں سے ادا کی ہے۔بہر حال یہ امریکہ کی جانب سے کسی بھی ملک کو فراہم کردہ سب سے بڑی سالانہ امداد اور دنیا کی سب سے ظالم خفیہ ایجنسی کی تیز رفتار سائنسی تحقیق کا تباہ کن امتزاج ہے۔

اسرائیلی داخلی سیکورٹی ایجنسی شین بیٹ نے 1990 کی دہائی کے اوائل میں ہونے والے خودکش بس بم دھماکوں کے معمار یحییٰ عیاش کو جعلی موبائل فون اسمگل کرنے کے لیے فلسطینی پراکسیز کا استعمال کیا۔ اسرائیلی ایجنٹوں نے 1997 میں عمان میں حماس کے اس وقت کے سربراہ خالد مشال کو زہر دے دیا تھا لیکن وہ اس لیے بچ گئے تھے کیونکہ موساد کے سربراہ ڈینی یاتوم اس زہر کے تریاق کے ساتھ اردن چلے گئے تھے کیوں کہ اس وقت کے اردنی بادشاہ شاہ حسین نے نیتن یاہو کو شدید غصے میں فون کال کے دوران دھمکی دی تھی کہ وہ انہیں (دونوں ایجنٹوں کو) پھانسی پر لٹکا دیں گے۔ سنہ 2010 میں دبئی پولیس نے موساد کے 11 ایجنٹوں کی تفصیلی فوٹیج جاری کی تھی جنہیں حماس کے اسلحے کے ڈیلر محمود المبوح کو ایک لگژری ہوٹل میں قتل کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔

ٹیلی فون بم، سڑک کے کنارے بم، بوبی ٹریپ بم اور گائیڈڈ میزائلوں نے باغی رہنماؤں کو نشانہ بنایا ہے جن میں 1979 میں بیروت میں سیاہ ستمبر کی شہرت رکھنے والے سرخ شہزادہ علی حسن سلمہ سے لے کر 2008 میں دمشق میں حزب اللہ کے نمبر 2 عماد مغنیہ تک اور حالیہ لبنان اور غزہ میں ہونے والی قاتلانہ حملوں کی ایک کڑی شامل ہے۔ اس کے باوجود مزاحمت ہمیشہ خود کو ڈھالنے اور بہتر بنانے میں کامیاب رہی ہے۔ یحیٰ عیاش کے قتل کے نتیجے میں بس بم دھماکے کم نہیں بلکہ زیادہ ہوئے۔ حماس نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور نئی صدی میں غزہ پر حکومت کی اور حزب اللہ مضبوط ہوتی گئی ہے اور یہ اس حدتک اب مضبوط ہوگی کہ لبنان کے ساتھ جنگ، 2006 کے برعکس، اب امریکہ کی براہ راست شمولیت کی ضرورت ہوگی۔

آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ حزب اللہ جولائی میں فواد شکر کے قتل کے بعد اسرائیلی فوج کے سربراہ ہرزی حلوی کی بات کو اچھی طرح سمجھ چکی ہے کہ ”ہم بیروت کے ہر دروازے اور کھڑکی تک پہنچ سکتے ہیں“۔ اگرچہ پیجر دھماکوں نے یقینی طور پر حزب اللہ کی ہائی کمان کو ہلا کر رکھ دیا ہوگا لیکن اس میں کچھ اور بھی ہے جو نظر سے پوشیدہ ہے۔

مثال کے طور پر اسپائیز اگینسٹ آرماگیڈن اور اسرائیلی انٹیلی جنس پر دیگر کتابوں کے شریک مصنف یوسی میلمین نے دی گارجین کو بتایا کہ اگرچہ ہم جانتے ہیں کہ موساد بار بار حزب اللہ میں گھسنے اور دراندازی کرنے میں کامیاب رہی ہے اور پیجر حملہ سرحدی بحران کو جنگ میں تبدیل کرنے کے امکانات کو بڑھاتا ہے لیکن یہ خوف کی علامت ہے، یہ ”بڑا ہدف نہیں تھا“ اور نہ ہی یہ وسیع تر اسٹریٹجک تصویر کو تبدیل کرے گا لہذا مجھے اس میں کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی۔

میرے عرب دوستوں کے مطابق اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا واشنگٹن اس میں شامل تھا۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ بائیڈن نے اپنے طیارہ بردار بحری جہاز اس وقت بھیجے جب اسرائیلی وزیر اعظم ”بیبی“ کو واضح الفاظ میں بتایا گیا کہ بہتر ہے کہ واشنگٹن کو اگلی بار اندھیرے میں نہ رکھا جائے۔ حزب اللہ (یعنی ایران) کا ردعمل اس بات پر منحصر ہے کہ آیا امریکہ اس شاندار پیجر آپریشن میں کس قدر شامل تھا، کیا امریکہ اور اسرائیل کی مشترکہ کارروائی ایران کو نقصان پہنچا رہی ہے یا نیتن یاہو امریکی حمایت اور صبر کی حدوں کو بڑھا رہے ہیں۔

بہرحال، اس کا جواب جلد ہی ملنا چاہیے کیونکہ حزب اللہ مسلسل چھوٹے چھوٹے حملے کرکے اسرائیلی معیشت کو کمزور کررہی ہے۔ اسرائیلی وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز نے حکومت کی جانب سے شمالی آبادی کو دوبارہ آباد کرنے کو جنگی ہدف بنائے جانے کے بعد کہا ہے کہ کارروائی قریب تر ہورہی ہے، حزب اللہ کو سخت نشانہ بنایا جائے گا، اس کی صلاحیت کم کردی جائے گی اور اسے پیچھے ہٹنا پڑے گا۔ لیکن یہ امریکہ کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

جیسے کہ اسرائیلی وزیر اعظم جنگی اہداف کی از سر نو وضاحت کر رہے ہیں اور اپنی جنگی کابینہ کو تبدیل کرنے کی تیاری کر رہے ہیں - وہ پہلے ہی وزیر دفاع یواو گیلنٹ اور آرمی چیف ہرزی ہالوی کو تبدیل کرنے کیلئے“بات چیت میں“ کررہے ہیں جو ان سے متفق نہیں ہیں۔ نیتن یاہو آگ سے کھیل رہے ہیں کیونکہ ایک بڑی اور وسیع تر جنگ کے لیے ان کی مایوسی، تاکہ وہ وزیر اعظم رہ سکیں، انہیں تیزی سے لاپرواہ بنا تی ہے۔

Comments

200 حروف