پاکستان

افراط زر میں کمی کے بعد شرح سود بھی کم کردی گئی

  • افراط زر میں کمی کی رفتار کمیٹی کی توقعات سے زیادہ ہے، مرکزی بینک
  • اسٹیٹ بینک نے اس سے قبل اپریل 2020 میں شرح سود 2 فیصد تک کم کی تھی
شائع September 12, 2024 اپ ڈیٹ September 13, 2024

توقعات کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی مانیٹری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) نے جمعرات کو پالیسی ریٹ میں 200 بی پی ایس کی کمی کرکے 17.5 فیصد کردی، 13 ستمبر 2024 کو ہیڈ لائن اور بنیادی افراط زر میں گزشتہ دو ماہ کے دوران تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے۔

بیان کے مطابق آج اپنے اجلاس میں ایم پی سی نے پالیسی ریٹ کو 200 بی پی ایس کم کرکے 17.5 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کا اطلاق 13 ستمبر 2024 سے ہوگا۔

بیان میں کہا گیا کہ گزشتہ دو ماہ کے دوران ہیڈ لائن اور بنیادی افراط زر دونوں میں ہی تیزی سے کمی آئی ہے۔ افراط زر میں کمی کی رفتار کمیٹی کی سابقہ توقعات سے کچھ زیادہ ہے جس کی بنیادی وجہ توانائی کی قیمتوں میں منصوبہ بند اضافے پر عمل درآمد میں تاخیر اور تیل اور خوراک کی عالمی قیمتوں میں سازگار اتار چڑھاؤ ہے۔

جون میں 150 بی پی ایس کی کمی اور جولائی کے آخر میں مزید 100 بی پی ایس کی کمی کے بعد اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں یہ مسلسل تیسری کمی ہے۔ اپریل 2020 میں وبائی امراض کے دوران اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں 200 بی پی ایس کی کمی کی تھی۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت بنیادی شرح سود 11 سے کم کرکے 9 فیصد کردی گئی تھی۔

تاہم ایم پی سی نے کہا کہ اب بھی ایک فطری غیر یقینی صورتحال ہے جو محتاط مانیٹری پالیسی کے موقف کی ضرورت کو جواز فراہم کرتی ہے۔

کمیٹی کے مطابق اس حوالے سے کمیٹی نے گزشتہ برس کے دوران افراط زر میں مسلسل کمی لانے کیلئے سخت مانیٹری پالیسی کے موقف کی اہمیت پر زور دیا۔

تیل کی قیمتوں میں کمی اور زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری سمیت مثبت پیش رفت کا حوالہ دیتے ہوئے ایم پی سی نے اندازہ لگایا کہ حقیقی شرح سود اب بھی کافی حد تک مثبت ہے تاکہ افراط زر کو درمیانی مدت کے ہدف 5 سے 7 فیصد تک لایا جاسکے اور میکرو اکنامک استحکام کو یقینی بنانے میں مدد مل سکے۔

بیان کے مطابق یہ درمیانی مدت میں پائیدار اقتصادی ترقی کے حصول کے لئے ضروری ہوگا۔

ایم پی سی نے مشاہدہ کیا کہ افراط زر کے دباؤ میں مسلسل کمی اور پالیسی ریٹ میں حالیہ کمی کے اثرات صنعت اور خدمات کے شعبوں میں ترقی کے امکانات کیلئے بہتر ثابت ہوں گے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مجموعی طور پر جی ڈی پی کی حقیقی شرح نمو مالی سال 25 کے لیے ایم پی سی کے 2.5 سے 3.5 فیصد کے تخمینے کے مطابق ہے۔

ایم پی سی نے نوٹ کیا کہ خام تیل کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی اور عالمی مالیاتی حالات میں نسبتا نرمی کے درمیان عالمی میکرو اکنامک ماحول سازگار ہوگیا ہے۔

کمیٹی کا کہناہے کہ آئندہ درآمدات کے حجم میں اضافے کی توقع ہے جو موجودہ ملکی معاشی بحالی کے مطابق ہے۔ تاہم ملک کی تجارت کے حالات میں بہتری، بنیادی طور پر خام تیل کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے، مالی سال 25 میں مجموعی تجارتی خسارے پر قابو پانے کی توقع ہے۔

ایم پی سی نے مشاہدہ کیا کہ ان عوامل کے ساتھ ساتھ بیرون ممالک سے ترسیلات زر میں اضافے سے توقع ہے کہ مالی سال 25 میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کے 0-1 فیصد کی متوقع حد کے اندر رہے گا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کم ہونے والے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور آئی ایم ایف پروگرام کے تحت رقوم وصول ہونے سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو مزید مضبوط کرنے میں مدد ملے گی

مہنگائی کا منظر نامہ

ایم پی سی کے مطابق مالی سال 25 کے دوران اوسط افراط زر کی شرح پہلے کی پیشگوئی کی حد 11.5 – 13.5 فیصد سے کم ہو سکتی ہے، تاہم یہ تخمینہ ہدف شدہ مالیاتی استحکام کے حصول اور منصوبہ بند بیرونی سرمایہ کاری کے بروقت حصول پر منحصر ہے۔

پس منظر

ایم پی سی کے اعلان سے قبل کراچی انٹر بینک آفر ریٹ (کائیبور) میں بھی کمی واقع ہوئی۔

کائیبور کے نرخوں میں 2 بی پی ایس سے 32 بی پی ایس تک کمی واقع ہوئی۔

عارف حبیب لمیٹڈ (اے ایچ ایل) نے ایک نوٹ میں کہا، “سب سے بڑی کمی ایک ہفتے، دو ہفتے اور ایک ماہ کے کائیبور نرخوں میں دیکھی گئی، جس میں پیداوار میں بالترتیب 32 بی پی ایس، 22 بی پی ایس اور 15 بی پی ایس کی کمی دیکھی گئی۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ مانیٹری پالیسی میں شرح سود میں کمی سے متعلق مارکیٹ کی بڑھتی ہوئی توقعات کی عکاسی کرتا ہے۔

اس سے قبل 29 جولائی کو ہونے والے اجلاس میں اسٹیٹ بینک نے کلیدی پالیسی ریٹ میں 100 بی پی ایس کی کمی کی تھی۔

مرکزی بینک کے لیے تشویش کی بات یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے گرتی ہوئی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے بیل آؤٹ پیکج کے تحت سخت اصلاحات نافذ کرنے کے بعد گزشتہ دو سالوں میں پاکستان میں معاشی سرگرمیوں کی رفتار میں کمی آئی ہے۔

تاہم یہ مرحلہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے کیونکہ اسلام آباد نے اس سال کے اوائل میں ایک مختصر مدتی پروگرام مکمل کرنے کے بعد واشنگٹن میں قائم قرض دہندہ کے ساتھ ایک بار پھر طویل مدتی بیل آؤٹ معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔

جولائی میں آئی ایم ایف اور پاکستانی حکام نے 37 ماہ کی مدت پر مشتمل 7 ارب ڈالر کے قرض پروگرام کے لیے عملے کی سطح کے معاہدے (ایس ایل اے) پر دستخط کیے تھے جس کا مقصد جامع استحکام اور ترقی کا فروغ ہے۔

مارکیٹ فی الحال ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری کا انتظار کر رہی ہے۔ تاہم پاکستان کو آئی ایم ایف کے 18 ستمبر تک ہونے والے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس کے ایجنڈے میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔

تجزیہ کاروں کی توقعات

مارکیٹ کے ماہرین کی اکثریت کو توقع ہے کہ اسٹیٹ بینک اپنے نرم موقف کو جاری رکھے گا کیونکہ افراط زر کی شرح میں کمی نے لگاتار تیسری بار کمی کے رجحان کو تقویت دی ہے۔

بروکریج ہاؤس عارف حبیب لمیٹڈ (اے ایچ ایل) نے 150 بی پی ایس کی کٹوتی کی توقع کی تھی۔ ایک اور بروکریج ہاؤس جے ایس گلوبل نے اپنی رپورٹ میں اسی طرح کا نقطہ نظر پیش کرتے ہوئے کہا کہ کم ہوتی ہوئی افراط زر نے ایم پی سی کے ستمبر کے اجلاس میں مسلسل تیسری بار شرح سود میں 150 بی پی ایس کی کٹوتی کے ساتھ نرمی کے سلسلے کو جاری رکھنے کے امکان کو مضبوط کیا ہے، جس سے پالیسی ریٹ 18 فیصد تک گر سکتا ہے۔

ٹاپ لائن سیکیورٹیز کے سی ای او محمد سہیل نے بھی شرح سود میں 100 سے 200 بی پی ایس کی کٹوتی کی توقع ظاہر کی تھی۔

ایم پی سی کا گزشتہ اجلاس

ایم پی سی نے 29 جولائی کو اپنے گزشتہ اجلاس میں کلیدی شرح سود میں 100 بی پی ایس کی کمی کی تھی جو مارکیٹ کی توقعات کے مطابق تھی۔

ایم پی سی نے مشاہدہ کیا کہ جون 2024 میں افراط زر توقع سے قدرے بہتر تھی۔ ایم پی سی نے یہ بھی اندازہ لگایا کہ مالی سال 25 کے بجٹ کے اقدامات کے افراط زر پر اثرات عمومی طور پر پہلے کی توقعات کے مطابق تھے۔

جولائی میں آخری ایم پی سی کے بعد سے اقتصادی محاذ پر کئی اہم پیش رفت ہوئی ہے۔

روپے کی قدر میں 0.01 فیصد کمی ہوئی جبکہ پٹرول کی قیمتوں میں تقریبا 0.4 فیصد اضافہ ہوا۔

بین الاقوامی سطح پر تیل کی قیمتوں میں گزشتہ ایم پی سی کے بعد سے نمایاں کمی واقع ہوئی ہے اور طلب میں کمی کی وجہ سے یہ 70 ڈالر فی بیرل کے قریب ہے۔

اگست 2024 ء میں پاکستان میں افراط زر کی شرح سالانہ کی بنیاد پر 9.6 فیصد رہی جو جولائی 2024 کے مقابلے میں کم ہے جب یہ 11.1 فیصد تھی۔ ادارہ برائے شماریات پاکستان (پی بی ایس) کے اعداد و شمار کے مطابق سی پی آئی پر مبنی افراط زر کی شرح تین سال کے عرصے کے بعد سنگل ڈیجٹ میں واپس آ گئی ہے۔

اس کے علاوہ جولائی 2024 میں ملک کے کرنٹ اکاؤنٹ میں 162 ملین ڈالر کا خسارہ ریکارڈ کیا گیا جو کہ گزشتہ مالی سال کے اسی مہینے میں 741 ملین ڈالر کے خسارے کے مقابلے میں 78 فیصد کم ہے۔

اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں ہفتہ وار بنیادوں پر 3 کروڑ 30 لاکھ ڈالر کا اضافہ ہوا جو 30 اگست تک 9 ارب 44 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئے۔

ملک کے کل زرمبادلہ کے ذخائر 14.74 ارب ڈالر رہے۔ کمرشل بینکوں کے خالص زرمبادلہ کے ذخائر 5.30 ارب ڈالر رہے۔

Comments

200 حروف