ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ اور ڈیموکریٹک نائب صدر کملا ہیرس نے منگل کے روز اپنے پہلے صدارتی مباحثے کے ابتدائی حصے میں فوری طور پر جارحانہ انداز اپنایا اور ایک دوسرے پر تنقیدی حملے کئے۔

59 سالہ ہیرس نے ٹرمپ کی جانب سے غیر ملکی مصنوعات پر زیادہ محصولات عائد کرنے کے ارادے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے متوسط طبقے پر سیلز ٹیکس سے تشبیہ دیتے ہوئے خاندانوں اور چھوٹے کاروباروں کو ٹیکس فوائد دینے کے اپنے منصوبے کا حوالہ دیا۔

ہیرس نے 2017 سے 2021 تک صدر کی حیثیت سے اپنے کام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، “ڈونلڈ ٹرمپ نے گریٹ ڈپریشن کے بعد سے ہمیں بدترین بے روزگاری دی ہے۔ اپریل 2020 میں افراط زر کی شرح 14.8 فیصد تھی اور جب انہوں نے عہدہ چھوڑا تو یہ 6.4 فیصد تھی، لیکن گریٹ ڈپریشن میں یہ کہیں زیادہ تھی۔

78 سالہ ٹرمپ نے بائیڈن انتظامیہ کے دور میں مسلسل افراط زر پر ہیرس کو تنقید کا نشانہ بنایا، حالانکہ انہوں نے قیمتوں میں اضافے کی سطح کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا۔ انھوں نے فوری طور پر اپنے سب سے بڑے مسئلے امیگریشن کی طرف بھی توجہ مبذول کرائی اور بغیر کسی ثبوت کے ایک بار پھر دعویٰ کیا کہ ’پاگل پناہ گاہوں‘ سے آنے والے تارکین وطن میکسیکو کے ساتھ امریکہ کی جنوبی سرحد عبور کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ افراط زر لوگوں، متوسط طبقے اور ہر طبقے کے لیے تباہی کا باعث ہے۔

یہ بحث مقامی وقت کے مطابق رات نو بجے شروع ہوئی جس میں دونوں حریفوں کے درمیان مصافحہ ہوا، جو اس سے پہلے کبھی نہیں ملے تھے۔ ہیرس نے اپنے خطاب میں ٹرمپ سے اپنا نام لے کر اپنا تعارف کرایا۔

5 نومبر کو ہونے والے انتخابات میں آٹھ ہفتے باقی رہ گئے ہیں اور کچھ ریاستوں میں قبل از وقت ووٹنگ شروع ہونے میں چند دن باقی ہیں، اس مباحثے میں ہر امیدوار کے لیے مواقع اور خطرات دونوں کو ٹیلی ویژن پر لاکھوں ووٹروں کے سامنے پیش کیا گیا۔

ہیرس کے لیے یہ مقابلہ خاص طور پر اہم ہے کیونکہ رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک چوتھائی سے زیادہ ممکنہ رائے دہندگان کو لگتا ہے کہ وہ ان کے بارے میں کافی نہیں جانتے۔ ہیرس نے صدر جو بائیڈن کے صدارتی روڈ سے دستبردار ہونے بعد سات ہفتے قبل ہی اس دوڑ میں حصہ لیا تھا۔

Comments

200 حروف