اسلام آباد کی احتساب عدالت نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان اور ان کی اہلیہ کے خلاف توشہ خانہ ٹو ریفرنس خصوصی جج سینٹرل کو منتقل کردیا کیونکہ سپریم کورٹ کی جانب سے نیب آرڈیننس 1999 میں ترمیم کے بعد یہ کیس قومی احتساب بیورو (نیب) کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔

عمران خان کی درخواست ضمانت پر سماعت کے دوران پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ نیب قوانین میں ترامیم کی بحالی کے بعد توشہ خانہ کیس اب ان کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔

پی ٹی آئی کے بانی کے وکیل نے کہا کہ ایسی ترامیم کی روشنی میں کیس موجود ہی نہیں ہونا چاہیے۔

نیب کی درخواست پر احتساب عدالت نے توشہ خانہ ریفرنس اسلام آباد کے خصوصی جج کو منتقل کردیا۔

6 ستمبر کو سپریم کورٹ نے متفقہ طور پر وفاقی حکومت اور کچھ افراد کی اپیلوں کو منظور کرتے ہوئے قومی احتساب آرڈیننس (این اے او) 1999 میں کی گئی ترامیم کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ واپس لیتے ہوئے نیب قانون میں تبدیلیاں بحال کردی تھیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس سید حسن اظہر رضوی پر مشتمل 5 رکنی بینچ نے وفاق اور چند افراد کی اپیلوں پر محفوظ فیصلہ سنایا۔

سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سید منصور علی شاہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے 15 ستمبر 2023 کو 2:1 کی اکثریت سے نیب آرڈیننس میں کی گئی ترامیم کی بیشتر شقوں کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔

جسٹس قاضی فائز کی جانب سے لکھے گئے پانچ ججوں کے فیصلے میں کہا گیا ہے سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے دائر کی گئی درخواست اور فیصلہ یہ ثابت کرنے میں ناکام رہا کہ ترامیم غیر آئینی تھیں۔

Comments

200 حروف