بروکریج ہاؤس جے ایس گلوبل نے جمعرات کو اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کمی سے پاکستان کو فائدہ ہوگا اور س سے ملک کے تجارتی توازن اور مہنگائی کی شرح پر مثبت اثر پڑیگا۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان تیل درآمد کرنے والا ملک ہونے کے ناطے تیل کی قیمتوں میں جاری بہتری کے موافق اختتام پر ہے۔

جے ایس گلوبل کے مطابق اجناس کی قیمتیں پاکستان کے تجارتی توازن اور افراط زر میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پٹرولیم درآمدات کل درآمدات کا تقریباً 30 فیصد اور مجموعی برآمدی آمدنی کا تقریباً 55 فیصد ہیں، جو انہیں تجارتی خسارے کا ایک اہم محرک بناتی ہیں، اور تیل کی قیمتیں مہنگائی کی ٹوکری کے 6 فیصد وزنی ٹرانسپورٹ سیکٹر پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہیں۔

بروکریج ہاؤس کا کہنا ہے کہ یہ تخمینہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب گزشتہ پانچ ماہ کے دوران تیل کی عالمی قیمتوں میں تقریبا 20 فیصد یعنی 17 ڈالر فی بیرل کی کمی واقع ہوئی ہے اور یہ 15 ماہ کی کم ترین سطح 72.9 ڈالر فی بیرل پر پہنچ گئی ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ اوپیک پلس کی پیداوار میں کٹوتی کے ساتھ ساتھ چین کی اقتصادی ترقی کے خدشات اور عالمی کساد کے امکانات قیمتوں میں کمی کے پیچھے کچھ اہم عوامل ہیں۔

ادارہ شماریات کے تازہ ترین اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے بروکریج ہاؤس نے کہا کہ جولائی 2024 کے تجارتی اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ خام تیل اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں اوسطا 83 ڈالر فی بیرل پر خریدی گئیں، جبکہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتیں اس سطح سے 12 فیصد یعنی 10 ڈالر فی بیرل کم ہوئی ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تیل کی درآمدی قیمتوں میں کمی درآمدی بل پر مثبت اثرات مرتب کرے گی جس سے مالی سال 25 کے لیے ہمارے سی اے ڈی (کرنٹ اکاؤنٹ خسارے) کے تخمینے میں تقریباً 80 0 ملین ڈالر (جی ڈی پی کا 0.2 فیصد) کی کمی آئے گی۔

مزید برآں 5 ڈالر فی بیرل کی کمی سے سالانہ درآمدی بل میں تقریبا 900 ملین ڈالر یعنی جی ڈی پی کا 0.25 فیصد کمی واقع ہوتی ہے۔

بروکریج ہاؤس نے نوٹ کیا کہ ترسیلات زر پر تیل کی کم قیمتوں کا ممکنہ جوابی اثر ہوسکتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چونکہ پاکستان کی ترسیلات زر کا 55 فیصد حصہ مشرق وسطیٰ سے آتا ہے جو کہ تیل کی آمدنی پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے اس لیے تیل کی قیمتوں میں طویل عرصے تک کمی ان ممالک کی معیشتوں پر منفی اثرات مرتب کرسکتی ہے اور اس طرح ترسیلات زر کا موجودہ سطح سے بہاؤ کمزور ہو سکتا ہے۔

تاہم تاریخی اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ تیل کی قیمتوں اور ترسیلات زر کے درمیان کمزور تعلق ہے جس سے کسی قابل ذکر اثرات کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ ہمیں توقع ہے کہ مالی سال 25 کی اوسط سی پی آئی 9 فیصد رہے گی، تیل کی قیمتوں میں کمی ہمارے تخمینے پر قدرے نظر ثانی کرسکتی ہے کیونکہ نقل و حمل کا شعبہ سی پی آئی باسکٹ کا صرف 6 فیصد ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تیل کی قیمتوں میں 5 ڈالر فی بیرل یعنی 7 فیصد کمی، مالی سال 25 کے لیے ہمارے ہیڈ لائن افراط زر کے تخمینے سے 35 بی پی ایس کم ہوجائے گی۔

دوسری جانب تیل کی کم قیمت بھی حکومت کو اپنے مالیاتی ہدف کو پورا کرنے کے لیے پٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی (پی ڈی ایل) میں اضافے کی گنجائش فراہم کرتی ہے۔

حکومت اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پی ڈی ایل کو 10 روپے فی لٹر (موجودہ پی او ایل پروڈکٹ پرائس لیول کا 4 فیصد) بڑھا کر 70 روپے فی لٹر کی نظرثانی شدہ حد تک لے جا سکتی ہے جس سے او ایم سی کی سست فروخت کی وجہ سے پی ڈی ایل وصولی میں کمی کو پورا کرنے میں مدد ملے گی۔

Comments

200 حروف