دو خواتین کئی دہائیوں تک بنگلہ دیش کی سیاست پر چھائی رہیں۔ ایک کو جلاوطنی میں دھکیل دیا گیا۔ دوسری حال ہی میں قید سے آزاد ہوئی ہیں اور حکومت کرنے کے لئے بہت بیمار ہے ، لیکن ان کے وارث اقتدار سنبھالنے کے لئے تیار نظر آتے ہیں۔

76 سالہ سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ رواں ماہ ہیلی کاپٹر کے ذریعے ملک سے ہمسایہ ملک بھارت چلی گئیں جب ان کی حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کرنے والے لوگوں کی بڑی تعداد نے ان کے محل کی طرف مارچ کیا۔

طالب علموں کی قیادت میں ہونے والی بغاوت کے نتیجے میں ان کی حکومت کے اچانک خاتمے کے چند گھنٹوں بعد، ان کی روایتی حریف اور دو بار وزیر اعظم رہنے والی 79 سالہ خالدہ ضیاء کو کئی سالوں میں پہلی بار نظر بندی سے رہا کر دیا گیا۔

خالدہ ضیاء کی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے ارکان نے حسینہ واجد کے دور میں کریک ڈاؤن اور بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کا سامنا کیا، جنہوں نے اسلام پسندوں کے ساتھ حزب اختلاف کے قریبی تعلقات کو جواز بنا کر کریک ڈائون کیا۔

حسینہ واجد کے اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد سے نگران حکومت ملک کو چلا رہی ہے لیکن بالآخر اسے نئے انتخابات کروانے ہیں اور اب جب بی این پی زیر زمین سے ابھری ہے تو اس کے ارکان کو اپنے اقتدار میں آنے کے امکانات کا یقین ہے۔

پارٹی کے اسٹوڈنٹ ونگ کے رہنما مولک واسی تامی نے اے ایف پی کو بتایا کہ جن لوگوں نے طویل عرصے تک پیچھے رہ کر ہماری حمایت کی، وہ اب سامنے آ رہے ہیں۔

عبوری رہنما اور نوبل انعام یافتہ 84 سالہ محمد یونس نے کہا ہے کہ ان کا موجودہ عہدہ ختم ہونے کے بعد سیاست میں رہنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

حسینہ واجد کا تختہ الٹنے کی قیادت کرنے والے طلبہ کو بھی خالدہ ضیاء سے کوئی محبت نہیں ہے اور یہ بھی واضح نہیں ہے کہ آیا وہ مستقبل میں بی این پی کی حکومت کی حمایت کریں گے یا اپنی پارٹی بنانے کی کوشش کریں گے۔

لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جب انتخابات ہوتے ہیں تو بی این پی ملک بھر کے نیٹ ورک، سیاسی تجربے اور جیتنے کی مہم کی طاقت رکھتی ہے۔

بنگلہ دیشی سیاست کے ماہر اور الینوائے اسٹیٹ یونیورسٹی کے پروفیسر علی ریاض نے اے ایف پی کو بتایا کہ “اگلے انتخابات میں، جب بھی یہ ہوں گے، بی این پی کی زیادہ مقبولیت ہوگی۔

خالدہ ضیا خود بھی اتنی بیمار ہیں کہ تیسری بار وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے قابل نہیں ہیں۔

سنہ 2018 میں بدعنوانی کی سزا کے بعد جیل جانے کے بعد سے وہ صحت سے متعلق مسائل کا سامنا کررہی ہیں۔

خالدہ ضیاء اپنی رہائی کے بعد سے صرف ایک بار منظر عام پر آئی ہیں، ڈھاکہ میں بی این پی کی ریلی میں اسپتال کے بستر سے پہلے سے ریکارڈ کیے گئے ویڈیو بیان میں، جس کے دوران وہ بیمار اور کمزور دکھائی دے رہی تھیں۔

حسینہ واجد کے بنگلہ دیش چھوڑنے کے دو روز بعد منعقدہ ریلی سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے ملک کی تعمیر نو کے لیے محبت اور امن کی ضرورت ہے۔

ان کے حامی انہیں فوری طبی امداد کے لیے بیرون ملک لے جانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں، جس سے ان کے بڑے بیٹے اور جانشین طارق الرحمٰن کے لیے باگ ڈور سنبھالنے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔

’وہ واپس آئے گا‘

طارق لندن میں جلاوطنی کے دوران اپنی والدہ کو سزا سنائے جانے کے بعد سے بی این پی کی قیادت کر رہے ہیں، جہاں وہ اپنے اوپر بدعنوانی کے الزامات سے بچنے کے لیے فرار ہو گئے تھے ۔

بی این پی کے سیکرٹری جنرل مرزا فخرالاسلام عالمگیر نے اے ایف پی کو بتایا کہ جب قانونی مسائل حل ہوجائیں گے تو وہ واپس آئیں گے۔

طارق کا چہرہ پہلے ہی پارٹی کے بینرز اور انتخابی مواد پر ان کی والدہ کے ساتھ نظر آتا ہے، جس میں حسینہ واجد کے تختہ الٹنے کے دو دن بعد منعقد ہونے والی ریلی بھی شامل ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ریلی کا انعقاد حسینہ واجد کے دور حکومت کے بعد قابل ذکر تبدیلی تھی۔

Comments

200 حروف