باخبر ذرائع نے بزنس ریکارڈر کو بتایا کہ اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے وزیراعظم شہباز شریف سے درخواست کی ہے کہ وہ وزارتوں اور ڈویژنز کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کی جانب سے 86-1985 سے 23-2022 کے دوران اربوں روپے کی ریکوری سے متعلق ہزاروں زیر التوا آڈٹ پیپرز کو نمٹانے پر مجبور کریں کیونکہ پرنسپل اکاؤنٹنگ افسران (پی اے اوز) کو ڈی اے سی کے اجلاس منعقد کرنے ہیں۔

10 اگست 2020 کو قومی اسمبلی کی جانب سے منظور کی گئی 86-1985 سے 10-2009 کی رپورٹ میں شامل 6,026 آڈٹ پیپرز پر پی اے سی کی سفارشات پر عمل درآمد زیر التوا ہے۔

مزید برآں، پی اے سی نے آڈٹ سال 11-2010 سے 23-2022 کے لئے آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) کی آڈٹ رپورٹس کے 10,414 آڈٹ پیراز کا جائزہ لیا اور تعمیل کے لئے متعلقہ وزارتوں، ڈویژن اور محکموں کو ہدایات / سفارشات جاری کیں۔ تاہم ان 10,414 آڈٹ پیراز میں سے 6,909 آڈٹ پیراز پر توجہ نہیں دی گئی۔

مزید برآں اے جی پی نے 23 مئی 2024 کو اپنے خط میں مختلف وزارتوں، ڈویژنز اور محکموں کے لیے مئی 2023 سے اپریل تک ہونے والے ڈپارٹمنٹل اکاؤنٹس کمیٹی (ڈی اے سیز) کے اجلاس کا ایک مربوط بیان ارسال کیا۔ بدقسمتی سے کئی پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسرز (پی اے اوز) اس عرصے کے دوران ڈی اے سی کا ایک بھی اجلاس منعقد کرنے میں ناکام رہے۔ ان آڈٹ پیراز میں اربوں روپے کی ریکوری شامل ہے۔

اسپیکر قومی اسمبلی کے مطابق فنانشل مینجمنٹ اینڈ پاورز آف پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسرز ریگولیشنز 2021 کے تحت پی اے اوز پی اے سی سمیت پارلیمنٹ کو جوابدہ ہیں۔ انہیں باقاعدگی سے ڈی اے سی اجلاس منعقد کرنے کی ضرورت ہے۔ اور چیف فنانس اینڈ اکائونٹس آفیسر، پی اے او کی نگرانی میں، پی اے سی، ڈی اے سی آڈٹ مشاہدات اور آڈٹ رپورٹس سے متعلق معاملات کو مربوط کرنے، پی اے سی / ڈی اے سی کی ہدایات / سفارشات کی تعمیل کو یقینی بنانے کے لئے ذمہ دار ہیں۔ قومی اسمبلی یا پی اے سی کی ہدایات/ سفارشات پر عمل نہ کرنا ایوان کے استحقاق کی خلاف ورزی ہے، جو متعلقہ سرکاری عہدیداروں کے خلاف قومی اسمبلی میں رولز آف پروسیجر اینڈ کنڈکٹ آف بزنس، 2007 کی متعلقہ دفعات کے تحت کارروائی کا باعث بن سکتا ہے۔

ایاز صادق نے اپنے خط میں وزیر اعظم سے درخواست کی ہے کہ وہ وزارتوں، ڈویژنوں اور محکموں کے تمام پی اے اوز کو پی اے سی کی سفارشات پر عمل کرنے کی ہدایت کریں۔ مزید برآں، پی اے سی اور اے جی پی کی طرف سے اجاگر کی جانے والی بے ضابطگیوں کو دور کرنے کے لئے باقاعدگی سے متعلقہ ڈی اے سی ز کے نتائج پر مبنی اجلاس منعقد کرنا ضروری ہے۔ 86-1985 سے 10-2009 کی مدت کے لئے پی اے سی کی رپورٹوں میں نشاندہی کردہ بقایا رقم کی وصولی کو متعلقہ پی اے اوز کے ذریعہ یقینی بنایا جاسکتا ہے۔

مالی سال 86-1985 سے 10-2009 تک وزارتوں/ ڈویژنوں کے آڈٹ پیراز کی تعداد درج ذیل ہے: (i) پٹرولیم ڈویژن 55؛ (ii) کابینہ ڈویژن، 78؛ (iii) دفاعی پیداوار، 99؛ (iv) دفاع، 512؛ (v) آئی ٹی اینڈ ٹی، 2؛ (vi) تجارت، 85؛ (vii) پاور ڈویژن، 462؛ (viii)یف بی آر، 754 ؛ (ix) فنانس ڈویژن 231؛ (x) صنعتیں اور پیداوار، 99؛ (xi) اطلاعات و نشریات 106؛ (xii) وفاقی تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت، 25؛ (xiii) داخلہ، 404؛ (xiv) سائنس اور ٹیکنالوجی، 35؛ (xv) نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ 154؛ (xvi) نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشنز اور کوآرڈینیشن، 154؛ (xvii) منصوبہ بندی ڈویژن اور اصلاحات، 19؛ (xviii) ہاؤسنگ اینڈ ورکس، 411؛ (xix) اسٹریٹجک پلان ڈویژن (ایس ڈی پی)، 3؛ (xx) امور کشمیر اور گلگت بلتستان، 104؛ (xxi) ایوی ایشن ڈویژن، 251؛ (xxii) سمندری امور، 41؛ (xxiii) غربت کے خاتمے اور سماجی تحفظ کا ڈویژن، 70؛ (xxiv) سمندر پار پاکستانی اینڈ ایچ آر ڈی ڈویژن، 103؛ (xxv) خارجہ امور، 320؛ (xxvi) مذہبی امور اور بین المذاہب ہم آہنگی، 18؛ (xxvii) خوراک اور زراعت 14; (xxviii) آبی وسائل؛ (158; (xxix) پاکستان ریلوے، 622؛ (xxx) مواصلات، 460؛ (xxxi) قومی ورثہ اور ثقافت ڈویژن 38؛ (xxxii) اقتصادی امور ڈویژن 7؛ (xxxiii) اسٹیبلشمنٹ ڈویژن، 13؛ (xxxiv) ایچ ای سی، 40 ; ؛ اور (xxxxi) الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی)، 2۔

اے جی پی کے مطابق 11-2010 سے 23-2022 تک آڈٹ پیراز کی تعداد 38,125 تھی جن میں سے 10،414 کا پی اے سی نے جائزہ لیا ہے جبکہ 27711 آڈٹ پیراز پر کبھی بات نہیں کی گئی۔ تاہم، 3505 آڈٹ پیراز کو حل / فیصلہ کیا گیا ہے. اس مدت کے دوران ایف اے اوز کے ذریعہ رپورٹ کردہ زیر التوا پیراز کی تعداد 34620 تھی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ کابینہ ڈویژن نے تمام وزارتوں/ ڈویژنز/ محکموں کو ہدایت کی ہے کہ وہ پی اے سی کی سفارشات پر سختی سے عملدرآمد کو یقینی بنائیں اور 31 جولائی 2024 تک تعمیلی رپورٹ وزیراعظم کو پیش کریں۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

200 حروف