طالبان حکومت کے ایک ترجمان نے بدھ کو کہا کہ افغانستان میں قید دو امریکیوں کے گوانتاناموبے میں قید افغانوں سے تبادلے کیلئے امریکہ کے ساتھ بات چیت کی گئی ہے۔

ذبیح اللہ مجاہد نے امریکی قیدیوں کے نام نہیں بتائے، لیکن ایک امریکی خاتون ایک بین الاقوامی این جی او کے ایک درجن سے زائد عملے میں شامل تھی جسے طالبان حکام نے گزشتہ ستمبر میں گرفتار کیا تھا، اور امدادی کارکن ریان کاربیٹ 2022 سے حراست میں ہیں۔

ذبیح اللہ مجاہد نے کابل میں ایک پریس کانفرنس میں کہا، ”ہمیں اپنے شہریوں کو بدلے میں آزاد کرانے کے قابل ہونا چاہیے، جیسا کہ امریکی شہری امریکہ کے لیے اہم ہیں، اسی طرح افغان ہمارے لیے اہم ہیں۔“

انہوں نے کہا کہ قطر میں اقوام متحدہ کی سرپرستی میں ہونے والے مذاکرات کے دوران امریکی نمائندوں کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے پر بات چیت ہوئی۔

یہ مذاکرات، جس میں اقوام متحدہ کے حکام، طالبان حکام اور افغانستان کے لیے خصوصی ایلچی موجود تھے، پیر کو ختم ہو گئے۔

ذبیح اللہ مجاہد نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دو امریکی شہری افغانستان میں قید ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے ان کی رہائی پر ان (امریکہ) کے ساتھ پہلے بھی بات چیت کی ہے، افغانستان کی شرائط کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔

ایک امریکی خاتون غیر سرکاری تنظیم انٹرنیشنل اسسٹنس مشن(آئی اے ایم) کے کم از کم 18رکنی عملے میں شامل تھی جنہیں عیسائی مشنری کیلئے کام کرنے کے الزام میں حراست میں لیا گیا تھا۔

اقوام متحدہ نے جون میں کاربیٹ کی زندگی کو لاحق خطرے سے متنبہ کیا اور طالبان حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ ”ان کی بگڑتی ہوئی صحت کے پیش نظر فوری طور پر علاج تک رسائی“ دیں۔

اگست 2021 میں اس گروپ کی اقتدار میں واپسی کے بعد طالبان حکام نے درجنوں غیر ملکیوں کو حراست میں لیا ہے۔

سفر کے خطرات

امریکہ سمیت کئی ممالک غلط حراست، تشدد اور اغوا کے خطرات کا حوالہ دیتے ہوئے افغانستان کا سفر کرنے والے شہریوں کو خبردار کرتے ہیں۔

کم از کم ایک افغان قیدی گوانتاناموبے میں زیر حراست ہے، محمد رحیم، جس کے اہل خانہ نے نومبر میں اس کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔

فروری میں، 2017 تک گوانتاناموبے میں قید دو سابق قیدیوں کو گرفتار کیے جانے کے 20 سال سے زیادہ عرصے بعد، افغانستان میں ان کا استقبال کیا گیا۔

عبدالکریم اور عبدالظاہر کو عمان منتقل کر دیا گیا تھا اور ان کی رہائی تک انہیں نظر بند رکھا گیا تھا۔

امریکی حکام کو قیدیوں کے خلاف تشدد اور بدسلوکی کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا، جہاں بہت سے لوگوں کو بغیر کسی الزام کے یا ان کی حراست کو چیلنج کرنے کی قانونی حق کے بغیر رکھا گیا تھا۔

فوجی جیل کے بیشتر قیدیوں کو گزشتہ برسوں کے دوران رہا کیا گیا ہے، جن میں طالبان کے سینئر رہنما بھی شامل ہیں۔

امریکی حکومت نے برسوں سے کہا ہے کہ وہ قیدیوں کی تعداد کو کم کرنے اور بالآخر گوانتاناموبے کو بند کرنے کے لیے کام کر رہی ہے، جو کیوبا کے جزیرے پر واقع ہے لیکن امریکی دائرہ اختیار میں ہے۔

Comments

200 حروف