قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب نے کہا ہے کہ چین کی جانب سے پاکستان کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ اپنے گھر کو ٹھیک کرے کیونکہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے خطرے میں ہیں، یہ ملک میں دہشت گردی کی لعنت کو روکنے میں ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مکمل ناکامی ہے۔

عمر ایوب جو پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل بھی ہیں، کی جانب سے یہ الفاظ ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب ایک روز قبل چین کی کمیونسٹ پارٹی کے بین الاقوامی شعبے کی سینٹرل کمیٹی کے وزیر لیو جیان چاؤ نے سکیورٹی کو سی پیک کے مستقبل کے لیے سب سے بڑا چیلنج قرار دیا تھا۔ اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت کے لیے یہ واضح پیغام ہے کہ وہ سی پیک منصوبوں کی سیکیورٹی کو یقینی بنائے بصورت دیگر ملک میں مستقبل میں سی پیک سرمایہ کاری خطرے میں پڑ جائے گی۔

انہوں نے چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر سے مطالبہ کیا کہ وہ چینی شہریوں سے متعلق سیکیورٹی کی ناکامیوں پر بات کرنے کے لیے ہنگامی کور کمانڈرز کانفرنس بلائیں۔

انہوں نے کہا کہ میں آرمی چیف سے مطالبہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ ایک کانفرنس بلائیں جس میں صرف چینی شہریوں اور ماہرین کی حفاظت پر توجہ مرکوز کی جائے اور موجودہ سیکیورٹی اقدامات کا جائزہ لیا جائے اور کسی بھی ناکامی کے لیے جوابدہی کی جائے۔

انہوں نے احتجاج کے دوران پنجاب میں پی ٹی آئی کے 100 سے زائد کارکنوں کی حالیہ گرفتاریوں کو تنقید کا نشانہ بنایا اور پنجاب کے آئی جی ڈاکٹر عثمان انور کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا اور انہیں اسمبلی ممبران کے خلاف مقدمات درج کرنے کے لیے ”سرٹیفائیڈ ٹاؤٹ“ قرار دیا۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کے بجائے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے خریدے گئے کالے ویگو ٹرکوں کا استعمال کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنماؤں، کارکنوں اور صحافیوں کو اغوا کرنے میں مصروف ہے۔‘‘

انہوں نے اس بات کو دوہرایا کہ آئی ایس آئی سمیت انٹیلی جنس ایجنسیوں کا بجٹ بحث کے لیے ایوان میں پیش کیا جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ”ہمیں یہ جاننے کا حق ہے کہ جاسوسی ایجنسیوں کو دی جانے والی یہ بھاری رقم ویگو ٹرکوں کی خریداری کے لیے استعمال کی گئی ہے یا ملک کے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے“۔

انہوں نے سوال کیا کہ آئی ایس آئی اور دیگر ایجنسیوں کے اہلکار اپنا کام کرنے کے بجائے عمران خان کی جاسوسی کے لیے اڈیالہ جیل میں کیوں گھوم رہے ہیں۔ اجلاس میں پیپلز پارٹی کے ارکان کی واپسی دیکھی گئی جنہوں نے بائیکاٹ ختم کر دیا اور ایوان میں اپنی موجودگی میں اضافہ کیا۔ اس موقع پر مرزا اختیار بیگ، شرمیلا فاروقی، نوید قمر، اعجاز جاکھرانی، عبدالقادر پٹیل اور جمال رحمانی بھی موجود تھے۔ ایک غیر معمولی اقدام میں، پی پی پی کے عبدالقادر پٹیل نے پی پی پی، مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے ذریعہ ”امپورٹڈ“ وزیر خزانہ کو لانے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “ہم سب نے اقتدار میں آنے کے بعد ایک کام کیا اور وہ ہے وزراء کو درآمد کرنا، جو پھر آئی ایم ایف کی طرف سے طے شدہ بجٹ کی تیاری کا اپنا کام کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وزراء کی درآمد کا رجحان ختم ہونا چاہیے۔

ایم کیو ایم پاکستان کے رکن مصطفیٰ کمال نے بجٹ کے خدشات کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ 9500 ارب روپے سود کی ادائیگیوں پر خرچ کیے جائیں گے جو کہ ریونیو کا 51 فیصد ہے۔

انہوں نے اسلامی ریاست کی بات کرنے کے باوجود سود کی ادائیگی پر پی ٹی آئی کی خاموشی پر سوال اٹھایا اور سود کے خاتمے کے لیے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد نہ کرنے پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

انہوں نے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی پر زور دیا، اس بات کی نشاندہی کی کہ سالانہ ترقیاتی اخراجات کیلئے مختص کی گئی رقم سے کیپیسٹی چارجز زیادہ ہیں۔

انہوں نے مشورہ دیا کہ نواز شریف، شہباز شریف، آصف علی زرداری اور دیگر رہنما پاکستان کا قرضہ کم کرنے کے لیے اپنی دولت سے حصہ ڈالیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں تجویز دینا چاہتا ہوں کہ زرداری بلاول ہاؤس بیچ دیں، نواز شریف اپنا رائیونڈ محل بیچ دیں اور عمران خان 1000 ارب روپے اکٹھے کرنے کے لیے اپنی بنی گالہ رہائش گاہ کو فروخت کریں‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر یہ لیڈر ملک کو غیر ملکی قرضوں سے نجات دلانے کے لیے ایک ہزار ارب روپے اکٹھا کر لیں تو ملک کے عوام ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے لیکن ان تینوں کو ملک کی بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کا دل ہونا چاہیے۔

اس کے ساتھ ہی انہوں نے آرمی چیف سے مطالبہ کیا کہ وہ ملک کو قرضوں سے آزاد بنانے میں اپنا کردار ادا کریں لیکن انہوں نے تجویز پیش کی کہ حاضر سروس فوجی جرنیلوں اور دیگر امیر افراد کو بھی اس میں حصہ ڈالنا چاہیے اور ارکان پارلیمنٹ کو اپنی کمائی کا 25 فیصد مختص کرنا چاہیے۔

مصطفیٰ کمال نے کہا کہ اگر امیر قیادت علامتی طور پر حصہ ڈالتی ہے تو عوام کو قومی قرضوں کو کم کرنے میں مدد کرنے کی ترغیب ملے گی۔

اجلاس کے آغاز پر قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف نے حکومت پر پارلیمنٹ کو گمراہ کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ سندھ کا صوبائی سرپلس صفر ہے اور وفاقی حکومت اپنے صوبائی سرپلس کو غلط انداز میں پیش کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بجٹ کے اعداد و شمار میں صوبے سے آئے ہیں لیکن یہاں وفاقی حکومت جھوٹ بول رہی ہے۔

قبل ازیں پی ٹی آئی کے ایم این ایز اور سینیٹرز نے پارلیمنٹ ہاؤس سے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی عمارت تک احتجاجی مارچ کیا جس میں الیکشن کمیشن کی جانب سے پارٹی کو آزادانہ اور منصفانہ انتخابات سے محروم رکھنے، انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دینے اور دیگر مسائل پر احتجاج کیا گیا۔

قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کی سربراہی میں پی ٹی آئی کے ایم این ایز اور سینیٹرز نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ای سی پی جس کو غیر جانبدار سمجھا جاتا ہے وہ حکمران اشرافیہ بالخصوص مسلم لیگ ن کی بی ٹیم کے طور پر کام کر رہا ہے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

200 حروف