پاکستان

عوام پر حد سے زیادہ ٹیکس نہ لگائیں ، بجٹ پر حکومتی اتحادی بھی برہم

  • مقدس گایوں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جاسکے ، تنخواہ دار طبقے پر مزید ٹیکس لگانے سے برین ڈرین میں تیزی آسکتی ہے ، اراکین پارلیمنٹ
شائع June 22, 2024

اتحادی سیاسی جماعتوں سمیت اراکین قومی اسمبلی نے تنخواہ دار طبقے پر مزید ٹیکس عائد کئے جانے اور مقدس گایوں خاص طور پر رئیل اسٹیٹ اور زرعی شعبوں کو سبسڈی اور استثنیٰ کے ذریعے سہولت فراہم کرنے پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

قومی اسمبلی میں بجٹ بحث میں حصہ لیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ تنخواہ دار طبقے پر اتنے بھاری ٹیکس لگانا محض غیر منطقی ہے جس سے ملک سے برین ڈرین میں تیزی آسکتی ہے۔

انہوں نے وفاقی بجٹ میں اراکین پارلیمنٹ سے بجٹ تجاویز کو شامل کرکے تبدیلیوں کا مطالبہ کیا تاکہ عوام کو مزید ریلیف دیا جاسکے اور مقدس گایوں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جاسکے کیونکہ یہ وقت ٹیکس چوروں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا ہے۔

بحث میں حصہ لیتے ہوئے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے ڈاکٹر فاروق ستار نے روایتی بجٹ کے تسلسل کو ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور پائیدار ترقی کے لئے بجٹ کو عوام دوست اور کاروبار دوست بنانے کی تجویز پیش کی۔

انہوں نے کہا کہ ضرورت سے زائد ٹیکس والے یا غلط ٹیکس والے بجٹ اور ترقی پر مبنی بجٹ میں فرق ہونا چاہیے، بجلی، گیس، پینے کے صاف پانی اور پٹرولیم کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ عام آدمی کے بنیادی مسائل ہیں جنہیں ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔

فنانس بل 2024-25 کے ذریعے 50 ہزار سے ایک لاکھ روپے ماہانہ آمدنی والے تنخواہ دار افراد کے لیے ٹیکس کی شرح دگنی کردی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مجوزہ اضافے سے 50 ہزار روپے سے زائد آمدن پر ٹیکس کی شرح 2.5 فیصد سے بڑھا کر 5 فیصد کردی جائے گی۔

جاگیرداروں کی زرعی آمدنی کو بلا تاخیر ٹیکس نیٹ میں لایا جائے نہ کہ تنخواہ دار طبقے پر مزید ٹیکسوں کا بوجھ ڈالا جائے۔

فاروق ستار نے 2024-25 کے بجٹ کو روایتی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ بجٹ گزشتہ 77 سال سے پالیسیوں کے تسلسل کی عکاسی کرتا ہے، دنیا میں ایسے ممالک ہیں جہاں ٹیکس بالکل نہیں ہے لیکن یہ پاکستان ہے جہاں غریبوں پر بھاری ٹیکس کے ساتھ روایتی بجٹ معمول بن گیا ہے ۔ ہمیں گزشتہ 7 دہائیوں سے روایتی بجٹ کے ذریعے جو کچھ کر رہے ہیں اس سے چھٹکارا پانے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ عوام کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے بجٹ تیار کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن بدقسمتی سے ہر بجٹ مٹھی بھر اشرافیہ کو سہولت فراہم کرنے کے لیے ہوتا ہے۔

انہوں نے بجٹ میں غریبوں کے لئے ریلیف اقدامات کا مطالبہ کیا اور حکومت سے نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ پر نظر ثانی کرنے کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے کراچی کے پانی کے مسائل کو حل کرنے اور شہر کے نکاسی آب کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے مزید فنڈز مختص کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لئے مزید ترغیبات اور ترقی پر مبنی معیشت کی حوصلہ افزائی کرنے والی پالیسیوں کی بھی وکالت کی۔

پاکستان تحریک انصاف کی حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل کے رانا عاطف نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ان کی جماعت کے اراکین اسمبلی کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک نہ کرے۔

انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ آئی پی پی صلاحیت کی ادائیگیوں کے مسئلے کو حل کرے اور ملکی درآمدات کو مزید بڑھانے کے لئے اقدامات کریں۔

حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی آسیہ ناز تنولی نے کہا کہ معاشرے کے غریب طبقے کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے، بجٹ عوام دوست ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) نے 2013 میں اقتدار میں آنے کے بعد ملک میں لوڈ شیڈنگ کا دیرینہ مسئلہ حل کیا ، ملک بھر میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے مزید فنڈز مختص کیے گئے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے اور عوام کی بہتری کے لئے اپنی سیاست قربان کرنے کی تاریخ رہی ہے۔

سنی اتحاد کونسل کے عمر فاروق نے کہا کہ ملک میں تمام برائیوں کی جڑ بے تحاشا کرپشن ہے، کرپشن کی لعنت کا خاتمہ پی ٹی آئی کا نصب العین ہی ملک کو خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے کا واحد حل ہے۔

انہوں نے زرعی، صنعتی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں کو مزید ریلیف دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ان شعبوں سے لوگوں کے لیے روزگار کے مزید مواقع پیدا ہوں گے۔

مسلم لیگ (ن) کے راجہ خرم شہزاد نواز نے کہا کہ وفاقی دارالحکومت کے رہائشیوں کو بہتر سفر، تعلیم اور صحت کی سہولتیں فراہم کی جائیں۔

انہوں نے اسلام آباد میں رئیل اسٹیٹ کے کاروبار پر کیپٹل گین ٹیکس واپس لینے کی تجویز پیش کی۔

مسلم لیگ (ن) کے ایک اور رکن پارلیمنٹ ذوالفقار علی بھٹی نے کہا کہ ملک کو درپیش سیاسی اور معاشی بحران سے نکالنے کے لئے تمام سیاست دانوں کو متحد ہونا چاہئے۔

سنی اتحاد کونسل کے ساجد خان نے افغانستان کے ساتھ تجارت کو فروغ دینے کے لئے تمام 12 راستے کھولنے کی تجویز پیش کی۔

انہوں نے کہا کہ وفاق یا صوبائی حکومت کی جانب سے خیبر پختونخوا کے ضم شدہ اضلاع پر عائد غیر ضروری ٹیکسز فوری طور پر واپس لیے جائیں تاکہ علاقے کے عوام میں احساس محرومی کا خاتمہ ہو سکے۔

سنی اتحاد کونسل کے شہرام خان ترکئی نے تجویز دی کہ ادویات پر بڑھا ہوا سیلز ٹیکس واپس لیا جانا چاہئے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ادویات کی قیمتیں پہلے ہی بڑھ چکی ہیں اور نئے ٹیکسز سے حالات مزید خراب ہوجائیں گے۔

بجٹ بحث میں جمال شاہ کاکڑ، مجاہد علی خان، میاں خان بگٹی، شمشیر علی مزاری، رانا عاطف، امجد علی خان، ارشد عبداللہ وہرہ، محمد احمد چٹھہ، انور تاج، خرم شہزاد ورک، اسامہ احمد میلہ، شاہد احمد، احسان اللہ ورک، عبداللطیف، سہیل سلطان اور سید شاہ احد علی شاہ نے بھی حصہ لیا۔

اجلاس کے آغاز پر قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف نے پنجاب میں دفعہ 144 کے نفاذ کی مذمت کی اور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی غلام مصطفی ٰ شاہ سے مطالبہ کیا کہ وہ فیصلہ سنائیں کہ یہ پابندی آئین کی خلاف ورزی ہے۔

ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ یہ صوبائی معاملہ ہے اور امید ہے کہ یہ حل ہوجائے گا۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

200 حروف