فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے چیئرمین امجد زبیر ٹوانہ نے کہا ہے کہ تنخواہ دار طبقہ قومی خزانے میں 375 ارب روپے کا حصہ ڈال رہا ہے جبکہ برآمد کنندگان تنخواہ دار افراد کے مقابلے میں صرف 90 سے 100 ارب روپے ادا کر رہے ہیں۔ تنخواہ دار طبقے کی سالانہ شراکت 375 ارب روپے کے مقابلے میں خوردہ فروش، جن کا تخمینہ ملک بھر میں تقریبا 3.6 ملین ہے، سالانہ صرف 4 سے 5 ارب روپے ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔

سینیٹرز اس غیر منصفانہ ٹیکس نظام کے بارے میں سن کر حیران رہ گئے اور تنخواہ دار طبقے کے ٹیکس کی شرحوں میں اضافے کو متفقہ طور پر مسترد کردیا۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و محصولات کا اجلاس ہفتہ کو پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا، جس میں فنانس بل 25-2024 پر سفارشات کو حتمی شکل دی گئی۔

چیئرمین ایف بی آر نے تنخواہ دار طبقے، ایکسپورٹرز اور ریٹیلرز کی قومی خزانے میں ٹیکس شراکت کا دلچسپ موازنہ پیش کیا۔

کمیٹی کے ارکان ایف بی آر کی جانب سے برآمد کنندگان کی آمدن کو معمول کے ٹیکس نظام کے تحت لانے کے اقدام پر منقسم نظر آئے جبکہ اس سے قبل ان کی آمدنی کا صرف ایک فیصد ٹیکس تھا۔

پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے ایکسپورٹرز کو معمول کے ٹیکس نظام کے تحت لانے کے ایف بی آر کے اقدام کی بھرپور حمایت کی۔ انہوں نے دلیل دی کہ جب وہ غیر تنخواہ دار طبقے کے طور پر 45 فیصد تک حصہ ڈال سکتے ہیں تو پھر برآمد کنندگان کو اس طرح کی مراعات کیوں مل رہی ہیں؟

کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر سلیم مانڈوی والا، جن کا تعلق بھی پیپلز پارٹی سے ہے، نے ایف بی آر کے اقدام کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ برآمد کنندگان ڈالر لا رہے ہیں اور وہ ملک میں ڈالر کی آمد کو روک سکتے ہیں۔

چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ برآمد کنندگان اور خوردہ فروشوں کے لیے ٹیکس کی شرح میں اضافہ ایکویٹی اور منصفانہ ٹیکس کا نقطہ نظر ہے کیونکہ ایف بی آر کا اندازہ ہے کہ برآمد کنندگان کو معمول کے نظام میں لانے سے 125 ارب روپے کا اضافی ریونیو حاصل ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ایف بی آر نے ریٹیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے اقدامات کیے ہیں اور اندازہ ہے کہ آئندہ مالی سال میں ریٹیلرز سے ٹیکس وصولی سالانہ بنیادوں پر 4 ارب روپے کی موجودہ سطح کے مقابلے میں 50 ارب روپے تک پہنچ جائے گی۔

تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کے بڑے اضافے کے بارے میں چیئرمین ایف بی آر نے کمیٹی کو بتایا کہ تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس سلیب میں اضافہ کیا گیا ہے کیونکہ سلیب ون میں ماہانہ آمدنی والے افراد کے لیے موثر ٹیکس کی شرح 6 لاکھ روپے سے بڑھا کر 12 لاکھ روپے کردی گئی ہے جبکہ ٹیکس 1250 روپے ماہانہ سے بڑھا کر 2500 روپے ماہانہ کردیا گیا ہے۔

ٹیکس سلیب 12 لاکھ روپے سے بڑھا کر 22 لاکھ روپے ماہانہ کردیا گیا ہے، ٹیکس 11 ہزار 668 روپے سے بڑھا کر 15 ہزار روپے ماہانہ کردیا گیا ہے۔ 22 لاکھ روپے سے 32 لاکھ روپے تک کے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس 28 ہزار 750 روپے سے بڑھا کر 35 ہزار 834 روپے ماہانہ کردیا گیا ہے۔

32 لاکھ سے 41 لاکھ روپے تک کے سلیب پر ٹیکس 47 ہزار روپے سے بڑھا کر 58 ہزار روپے ماہانہ کردیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف نے تنخواہ دار اور غیر تنخواہ دار طبقے کے لیے یکساں سلیب بنانے کا مطالبہ کیا اور 45 فیصد زیادہ شرحیں عائد کیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم تین دن تک آئی ایم ایف کے ساتھ طویل بات چیت میں مصروف رہے اور انہیں تنخواہ دار طبقے کے لئے ٹیکس کی شرح کم کرنے پر راضی کیا۔

مسلم لیگ (ن) کی سینیٹر انوشہ رحمان نے بھی تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس کی شرح میں اضافے کی مخالفت کی۔

سینیٹ کمیٹی نے رئیل اسٹیٹ اور سیکیورٹیز پر کیپٹل گین کے لیے فکسڈ ریٹ وصول کرنے کے ایف بی آر کے اقدام کو بھی مسترد کردیا، جو فائلرز کے لیے 15 فیصد اور نان فائلرز کے لیے 45 فیصد مقرر کیا گیا ہے۔

پی ٹی آئی کے سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ جبری اقدامات سے ٹیکس بیس کو وسیع کرنے میں مدد نہیں ملے گی۔

سینیٹرز نے نوٹس جاری ہونے کے بعد بھی گوشوارے جمع نہ کرانے پر انکم ٹیکس جنرل آرڈر میں شامل افراد کے موبائل فون کے استعمال پر ٹیکس کی شرح 15 فیصد سے بڑھا کر 75 فیصد کرنے پر تبادلہ خیال کیا۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

200 حروف