پاکستان میں ٹیکس کا نظام ایک طویل عرصے سے بحث کا موضوع رہا ہے جس میں بہت سے لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ یہ غیر متناسب طور پر عام آدمی کو امیروں سے زیادہ نشانہ بناتا ہے۔

پیٹرول، اشیائے صرف اور دیگر ضروری اشیا پر ٹیکسوں میں مسلسل اضافہ پہلے سے مشکلات کا شکار تنخواہ دار طبقے اور کارپوریشنوں پر بھاری بوجھ بن گیا ہے۔ دریں اثنا غیر دستاویزی معیشت - جو ریئل اسٹیٹ، زراعت، اور بعض پیشوں جیسے شعبوں پر مشتمل ہے - بڑی حد تک بغیر ٹیکس کے رہتا ہے۔

بجٹ آنے کو ہے اور ماہرین مسائل کے حل کیلئے غیر معمولی طریقہ کار کا مشورہ دے رہے ہیں تاہم اس کی امید بہت کم ہے کیوں کہ ہمیشہ کی طرح پالیسی ساز ممکنہ طور پر انہی گروپوں پر ٹیکس لگائیں گے جو پہلے ہی قومی خزانہ بھرنے کیلئے اپنا بھر پور حصہ ڈال رہے ہیں۔ پالیسی سازوں کے پاس سوچنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف بھی موجود ہے۔

پاکستان کے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں میں پہلے ہی اضافہ ہوا ہے اور ان پر مزید بوجھ بڑھانے کی بات ہو رہی ہے۔ نیٹ میٹرنگ پالیسی پر نظرثانی کرنے کی حالیہ کوشش، جس سے گھرانوں کو بجلی پیدا کرنے اور اضافی بجلی گرڈ کو فروخت کرنے کی سہولت ملی، ایک اور مثال ہے۔

یہ اقدام صرف درمیانی آمدنی والے طقبات کی مالی پریشانیوں میں اضافہ کرے گا جو حکومت کا بنیادی ہدف بنی ہوئی ہے۔

دوسری طرف بڑے بااثر شعبے ٹیکسز میں رعایت اور نرمی سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں۔ زراعت جیسے ایک اہم شعبے پر ٹیکس کی کمی حکومت کی ترجیحات پر سوال اٹھاتی ہے۔ مزید یہ کہ ڈاکٹروں اور رئیل اسٹیٹ ایجنٹس جیسے پیشہ ور افراد ٹیکس کی ذمہ داریوں سے مستثنیٰ نظر آتے ہیں اور اپنی دولت چھپا کر نقد لین دین سے خود کو محفوظ کرلیتے ہیں۔

حکومت کی جانب سے پہلے سے عائد ٹیکسوں پر ٹیکس لگانے کی بے تابی ایک انوکھا معاملہ ہے۔

تنخواہ دار گروپ اور ضابطے کی مطابق چلنے والی کارپوریشنز پہلے ہی قومی خزانے میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں پھر بھی ان سے مزید برداشت کرنے کو کہا جا رہا ہے۔ یہ نقطہ نظر صرف ٹیکس وصولی کو سست کرنے، سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی اور اقتصادی ترقی کا باعث بنے گا۔

ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے پاکستانی کی پتلی گردن معاشی عدم مساوات کی بنیادی وجوہات کو حل کرنے میں حکومت کی ناکامی کی واضح یاد دہانی ہے۔ امیر اور غریب کے درمیان بڑھتا ہوا فاصلہ حکومت کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے جو بااثر افراد کی حمایت کرتی ہیں اور عام آدمی کو نظرانداز کرتی ہیں۔

ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے اور ٹیکس کے بوجھ کی زیادہ منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانے کے لیے حکومت کو غیر دستاویزی معیشت کو ٹیکس نیٹ میں لانے پر توجہ دینی چاہیے۔ یہ اصلاحات اور تعمیل کے لیے ترغیبات کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے، بجائے اس کے کہ معاشرے کے پہلے سے ٹیکس کی تعمیل کرنے والے طبقات کو سزا دی جائے۔

حکومت کو عام پاکستانی کی حالت زار کا ادارک ہونا چاہیے اور ان پر ٹیکس کا بوجھ نہیں ڈالنا چاہیے کیونکہ یہ کرنا آسان ہے۔ حکومت کو دباؤ کے خاتمے کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک منصفانہ اور جامع ٹیکس نظام، جس میں سب اپنا اپنا حصہ ڈالتے ہیں، سب کے لیے پائیدار اقتصادی ترقی اور خوشحالی کو یقینی بنانے کا واحد راستہ ہے۔

یہ حل کئی بار تجویز کیے گئے ہیں لیکن اس کی اہمیت زیادہ ہونے کے سبب اسے پھر دہرایا جارہا ہے۔

  • غیر دستاویزی معیشت کو شامل کرنے کے لیے ٹیکس کے نظام میں اصلاحات کی جائیں۔

  • ٹیکس کی تعمیل کے لیے مراعات متعارف کرائی جائیں۔

  • ٹیکس سلیب کو کم کریں اور ٹیکس نیٹ میں اضافہ کیا جائے۔

  • ایسا ٹیکس نظام نافذ کیا جائے جس میں بتدریج ترقی ہوسکے۔

  • بااثر شعبوں اور پیشوں پر ٹیکس میں اضافہ کیا جائے۔

  • بنیادی اور اشیائے ضروریہ پر ٹیکس کم کیا جائے۔

حکومت کو معاشی عدم مساوات کی بنیادی وجوہات کو ختم کرنے اور ایک منصفانہ اور جامع ٹیکس نظام کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔ اس کے بعد ہی پاکستان پائیدار اقتصادی ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے۔

پاکستان نے اپنی شرح خواندگی میں اس طرح کا اضافہ بھی نہیں دیکھا جس طرح ہونا چاہیئے تھا کیوں کہ مہنگائی رکاوٹ کے طور پر کام کرنے میں بڑا کردار ادا کر رہی ہے۔

حکومت کو صرف ’پتلی گردنیں‘ پکڑنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔

کھانے پینے کی اشیاء اور ادویات کی تاریخی بلند قیمتوں کے ساتھ ساتھ بجلی، گیس اور دیگر یوٹیلیٹی بلوں کے سبب پرسکون جیون کیلئے شاید کوئی جگہ بچی ہو۔

ضروری نہیں کہ مضمون بزنس ریکارڈر یا اس کے مالکان کی رائے کی عکاسی ہو۔

Comments

200 حروف