عام انتخابات جن سے معاشی استحکام کی راہ ہموار کرنے کے لئے غیر یقینی سیاسی صورتحال کو کم کرنے کی امید تھی اور تمام اسٹیک ہولڈرز و میڈیا پنڈتوں نے بھی اس کا اصرار کیا تھا کہ یہ معیشت کا رخ موڑنے میں کلیدی عنصر ہوگا، تاہم عام انتخابات کے صرف 3 ماہ بعد ہی ملک کو گندم کی قیمتوں سے متعلق ایک بڑے اسکینڈل کا سامناہے جس کیخلاف پنجاب بھر کے کسان سڑکوں پر احتجاج کررہے ہیں۔ وفاقی محتسب کی جانب سے کرنسی نوٹ پر اردو متن میں غلطیوں کی نشاندہی پر اسٹیٹ بینک کے اعتراف سے ایک اور تنازعہ پیدا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ اور تنازعہ بھی ابھر رہا ہے جو پنجاب پولیس کی بھاری نفری کی جانب سے وکلا کیخلاف آہنی ہاتھوں سے کارروائی کے بعد پیدا ہوا ہے۔

گندم اسکینڈل کو ممکنہ اور مختصر الفاظ میں نگران وزیر خزانہ کے فیصلے سے نتھی کیا جاسکتا ہے۔ بلاشبہ نگران وزیر اعظم جنہوں نے نیشنل فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ کا قلمدان بھی اپنے پاس رکھا تھا، نے نجی شعبےکو اس وقت گندم درآمد کرنے کی اجازت دینے کی حمایت کی جب موجودہ سیزن کے لیے متوقع ہدف ملک کی کھپت پورا کرنے کے لیے کافی تھا۔

گندم درآمد کرنے کے فیصلے ، جس پر کسان ماتم کناں ہیں، نے پنجاب حکومت کو گندم کی خریداری کے قابل نہیں چھوڑا بلکہ الٹا صوبائی حکومت کو مارکیٹ میں گندم کی فروخت کے حوالے سے قیمت بھی کم طے کرنے پر مجبور کیا ہے۔

پریشان کن بات یہ ہے کہ نگران وزیر خزانہ نے مبینہ طور پر انکوائری کمیٹی کے سامنے پیش ہونے سے انکار کر دیا ہے اور نگراں وزیر اعظم اپنی حکومت کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے یہ کہہ کر اصرار کر رہے ہیں کہ انہوں نے اس وقت دستیاب معلومات پر کام کیا اور نجی شعبے کو درآمد کرنے کی اجازت دی کیوں کہ اس وقت ان کی حکومت خریداری کیلئے رقم نہیں دے رہی تھی۔

یہ یقینی طور پر سچ ہے؛ تاہم اس حوالے سے دو مشاہدات ہیں۔: (i) درآمد کرنے کا فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا جب زرمبادلہ ذخائر انتہائی کم تھے اور ادائیگی کے توازن کو مستحکم کرنے کے لیے درآمدی پابندیاں عائد تھیں۔(ii) پاسکو (پاکستان ایگریکلچرل سٹوریج اینڈ سروسز کارپوریشن) یا ٹی سی پی ( ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان) کے ذریعے گندم کی خریداری کے لیے استعمال ہونے والے ریاستی فنڈز بجٹ میں رکھے گئے ہیں ۔ تاہم جب حکومت کسانوں سے خریدی گئی گندم کا اپنا ذخیرہ جاری کرتی ہے تو ان کی وصولی کی جاتی ہے۔

لہٰذا گندم کا گھپلہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ نگران حکومت کو اس معاملے کے بارے میں زیادہ علم تھا اور انہوں نے نا دانستہ طور پر موجودہ پیچیدہ صورتحال کی اجازت دی تھی یا انتہائی ظالمانہ انداز میں جان بوجھ کر نجی شعبے کو مادی فائدے کے لیے ترغیب دی تھی۔ کسی بھی طرح اس سے یہ بات پارلیمنٹیرینز تک پہنچ جائے گی کہ نگراں حکومت کے قیام کا رواج متروک کردینا چاہیے۔

جہاں تک اسٹیٹ بینک کی غلطی کا تعلق ہے تواس حوالے سے کچھ لوگوں کو کردار ادا کرنا چاہیئے تھا۔ عام طور پر غلطی سامنے آنے کی صورت میں کسی بھی ادارے کا سربراہ مستعفی ہوجاتا ہے اگرچہ وہ غلطی میں براہ راست ملوث نہ بھی ہوں تاہم ایک ایسے ملک میں، جہاں غلطی تسلیم نہ کرنے والے ایگزیکٹو کے ارکان، بیور وکریسی، اور اسٹیٹ بینک کی گورنر شپ جیسے آئینی عہدوں پر مشکل سے فائز ہوتے ہیں، استعفے نایاب ہوتے ہیں۔ کیا کوئی امید کرے گا کہ موجودہ مثال کے تناظر میں اسٹیٹ بینک اپنے جائزہ لینے کے طریقہ کو بہتر بنانے کیلئے مناسب اقدامات کرے گا ۔

اور آخر کار لاہور میں وکلا اور پولیس کے درمیان تصادم نے ماضی کے دور حکومت میں ایسے ہی مناظر کی یاد تازہ کر دی۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے ایکس پر کہا کہ انہوں نے وکلاء کو گرفتار کرنے کی ہدایت نہیں کی تھی۔

اگرچہ بزنس ریکارڈر وکلاء کی جانب سے پرتشدد کارروائیوں (وکلا گردی) کاحامی نہیں ہے، تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے صوبائی وزیر قانون سے اس معاملے پر بات کی یا یہ جاننے کی زحمت کی کہ پولیس کو کس نے طلب کیا تھا اور کس (مبینہ طور پر یہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے) نے وکلاء پر لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے استعمال کے احکامات دیے۔

صرف اپنے آپ کو تمام ذمہ داریوں سے بری الذمہ قرار دینا تقریباً گورنر اسٹیٹ بینک کی اپنے ادارے کی جانب سے نوٹوں کے اردو متن میں غلطیوں کی نشاندہی کرنے اور پھر ان کو درست کرنے میں ناکامی پر خاموشی ماضی کے واقعات کی یاددہانی کراتا ہے۔

یہ تینوں مثالیں اپوزیشن کے کردار سے پاک ہیں اور یہ واضح طور پر بدانتظامی، بدترین نااہلی کی عکاسی کرتی ہیں۔ یہ سب ایسے وقت میں ہورہا ہے جب بجلی کے بڑھتے نرخوں کے پیش نظر ( موجودہ ضرورت کے مطابق نظام کو بہتر کرنے کے بجائے ) پوری لاگت وصول کرنے کیلئے آئی ایم ایف سے وعدے کیے گئے، تاجروں کو وسیع ٹیکس نیٹ میں 30 اپریل کی ڈیڈ لائن تک رجسٹریشن کیلئے مجبور کرنے میں ناکامی ہوئی ہے کیوں کہ 32 لاکھ تاجروں میں سے صرف 70 تاجروں نے رجسٹریشن کرائی ہے (حالانکہ یہ امید ہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور تاجروں کے درمیان مذاکرات کامیاب ہوں گے) منظر نامہ تاریک دکھائی دے رہا ہے۔

لہٰذا یہ ضروری ہے کہ حکومت گھپلوں کیخلاف کارروائی کرتے ہوئے اسے نمٹائے اور انکوائری کمیٹی کے سامنے پیش ہونے سے انکار کرنے والوں، جیسا کہ مبینہ طور پر نگراں وزیر خزانہ نے انکار کیا تھا، سخت کارروائی کرے۔

Comments

200 حروف