وزیر خارجہ اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی بطور نائب وزیر اعظم تقرری ملک کی سیاست کی موجودہ صورتحال اور سول ملٹری تعلقات کی حساس نوعیت کے پیش نظر پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) کی زیرقیادت مخلوط حکومت کے مستقبل کے حوالے سے کچھ قیاس آرائیاں پیدا کررہی ہے۔

یہ بات دلچسپ ہے کہ یہ پیشرفت سابق وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے سات سال بعد حکمراں مسلم لیگ ن کی صدارت دوبارہ سنبھالنے کے بعد ہوئی ہے، وہ پاناما پیپرز کے نتیجے میں عوامی عہدے سے نااہل ہونے کے بعد اس عہدے سے ہٹائے گئے تھے۔

اس لیے اسحاق ڈار کی تقرری کو اگر نواز شریف کی جانب سے پارٹی کا عہدہ سنبھالنے کے ساتھ دیکھا جائے تو یہ بہت مضبوط تاثر دیتا ہے کہ نواز شریف اب کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور حکومت میں کسی اعلیٰ عہدے پر ایک بااعتماد ساتھی رکھنا چاہتے ہیں۔

اگرچہ نائب وزیر اعظم کے عہدے کو آئینی حیثیت حاصل نہیں ہے، بہت سے لوگ اسے ایک علامتی اقدام کے طور پر دیکھیں گے جو طاقت کی حرکیات میں ایک قابل فہم تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے، نواز شریف اس نقصان کو ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو ان کی سیاست کو پہنچا ہے۔ انکی سیاست زیادہ تر ملک میں رائج طاقت کے روایتی ڈھانچے کو چیلنج کرنے اور سویلین حکومتوں کی بالادستی پر اصرار کرنے کے گرد گھومتی تھی۔

یہ سیاست اکثر روایتی طاقت رکھنے والوں کے ساتھ کام کرنے کے حوالے سے شہباز شریف کے مفاہمتی نقطہ نظر سے متصادم رہی ہے۔ عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی کارکردگی غیر تسلی بخش رہی، بہت سے لوگوں نے اس خراب کارکردگی کو نواز شریف کے بیانیے پر عمل نہ کرنے کی وجہ قرار دیا۔

یاد رہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے آخری دنوں میں مسلم لیگ (ن) کے وفاداروں کے ایک حصے کو پارٹی کے اسٹیبلشمنٹ کا آلہ کار بننے اور مشکل معاشی ماحول میں عہدہ سنبھالنے کے بارے میں تحفظات تھے۔ یہ کہنا پڑے گا کہ یہ خدشات ایک حد تک درست بھی تھے، جیسا کہ اپریل 2022 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد، مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت پی ڈی ایم (پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ) اتحاد کو ایک انتہائی نازک معاشی صورتحال کا مقابلہ کرنا پڑا، معاشی بحران ان کی اپنی بہت سی غلط پالیسیوں کی وجہ سے مزید بڑھ گیا تھا۔

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اپنے بیانیے کو سائیڈ لائن کرنے نے مسلم لیگ ن کی سیاست کو کافی نقصان پہنچایا۔ جبکہ مسلم لیگ (ن) کے اندرونی ذرائع کا اصرار ہے کہ اسحاق ڈار کی تقرری شریف برادران کا مشترکہ فیصلہ تھا، اس تاثر کو زائل کرنا مشکل ہے کہ یہ نواز شریف کی جانب سے اپنے اثر و رسوخ کو مضبوط کرکے پارٹی کو پہنچنے والے نقصان کو دور کرنے کی کوشش ہے، یہ تقرری نواز شریف کے اپنے بنیادی سیاسی عقائد سے وابستگی کا اشارہ کرتی ہے۔

تازہ ترین پیشرفت اسحٰق ڈار کو وزیر خزانہ کے عہدے کے لیے نظر انداز کیے جانے کی تلافی کا ایک طریقہ بھی دکھائی دیتی ہے، حالیہ عرصے میں جب بھی پارٹی اقتدار میں رہی یہ عہدہ مسلم لیگ (ن) نے انہیں سونپا ہے۔

تاہم، پی ڈی ایم اتحاد کے وزیر خزانہ کی حیثیت سے ان کے دور میں ان کی پالیسیوں کے تباہ کن نتائج نکلے، جہاں ملک ادائیگیوں کے توازن کے شدید بحران سے دوچار ہوا اور عالمی قرض دہندگان اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیزی سے محتاط ہو گئے۔ جس کی وجہ سے مسلم لیگ ن کی زیرقیادت حکومت کیلئے اس سال اقتدار سنبھالنے کے بعد انہیں وزیر خزانہ کے اہم عہدے پر تعینات کرنا ناممکن ہوگیا۔ اس کے باوجود، نواز شریف سے ان کی قربت نے ان کی بطور وزیر خارجہ تقرری کو یقینی بنایا، اور اب وہ نائب وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے ساتھ ہی اپنا اثر و رسوخ جاری رکھنے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔

تاہم امید کی جاسکتی ہے کہ یہ بڑھتا ہوا اثر و رسوخ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کے کام میں رکاوٹ نہیں ڈالے گا، وزیر خزانہ آئی ایم ایف سے اہم فنڈنگ ​​حاصل کرنے اور انتہائی ضروری معاشی اصلاحات کو انجام دینے کے لیے کوشاں ہیں۔ حکمران جماعت کی اندرونی سیاسی حرکیات کو ملکی معیشت کی بہتری کے راستے میں نہیں آنا چاہیے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

200 حروف