وفاقی حکومت کو سندھ، خیبرپختونخوا (کے پی) اور بلوچستان کی پانچ پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں (ڈسکوز) کے دائمی نادہندگان سے 1 ٹریلین روپے سے زائد کی خطیر رقم کی وصولی کا مشکل کام درپیش ہے۔

گزشتہ ہفتے، وزیر برائے بجلی، سردار اویس احمد خان لغاری نے ایک پریس کانفرنس میں انکشاف کیا کہ 28 فروری 2024 تک قابل وصول رقم کا کل تخمینہ 1.9 ٹریلین روپے تھا۔ گردشی قرضوں کا تخمینہ تقریباً 2.6 ٹریلین روپے ہے۔

حکام کے انٹرویوز سے پتہ چلتا ہے کہ پنجاب میں قائم ڈسکوز یعنی اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (آئیسکو)، گوجرانوالہ الیکٹرک پاور کمپنی ( گیپکو)، لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی ( لیسکو)، فیصل آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (لیسکو) اور ملتان الیکٹرک پاور کمپنی(میپکو) کا 28 فروری 2024 تک نادہندگان میں حصہ صفر تھا۔

تاہم، پانچ دیگر ڈسکوز، پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی (پیسکو)، ٹرائبل الیکٹرک سپلائی کمپنی (ٹیسکو)، حیدرآباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (ایچ ای ایس سی)، سکھر الیکٹرک پاور کمپنی (سیپکو) اور کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی (کیسکو) کے نادہندگان کا تخمینہ 28 فروری 2024 تک 1.047 ٹریلین روپے تھا، جس میں سے 70 ارب روپے سرکاری اداروں/محکموں پر واجب الادا ہیں۔

کے پی کے، سندھ اور بلوچستان کے پانچ ڈسکوز کے قرضہ جات کی تفصیلات درج ذیل ہیں: (i) پیسکو، 120 ارب روپے (ii) ٹیسکو، 54 ارب روپے۔ (iii) حیسکو، 141 ارب روپے (iv) سیپکو، 165 ارب روپے اور (v) کیسکو، 496 ارب روپے۔

اہلکار کے مطابق، مستقل طور پر منقطع صارفین پر واجب الادا رقم 165 ارب روپے تھی، جو کہ 1.074 ٹریلین روپے کی مجموعی قابل وصول رقم کا حصہ بھی ہے۔ اہلکار کا کہنا تھا کہ ڈسکوز کو 165 ارب روپے کی وصولی کے لیے مستقل طور پر منقطع صارفین کے خلاف کارروائی کے لیے صوبائی حکومت سے تعاون درکار ہے۔

اہلکار نے مزید کہا، ان نادہندگان کے خلاف ایف آئی آر درج کی جانی چاہیے تھی تاکہ ڈسکوز کی واجب الادا رقم وصول کی جا سکے۔

تاہم وفاقی حکومت کے اندر مضبوط تاثر یہ ہے کہ نادہندگان پر واجب الادا رقم ڈسکوز کی جانب سے چوری میں اپنے کردار کو چھپانے کے لیے بڑے پیمانے پر اوور بلنگ کا نتیجہ ہے۔

ماضی میں پانچ ڈسکوز کے ذریعے غریب صارفین کو لاکھوں روپے کے بل بھیجے گئے ہیں اور ہر سال ان کی کل رقم میں 500 یا 1000 روپے کا اضافہ کیا جاتا ہے تاکہ ان کی ڈیفالٹر کی حیثیت برقرار رہے۔

ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے 203 ارب روپے کی سبسڈی کے بقایا دعوئوں کی رقم بھی بقایا وصولیوں میں شامل ہے۔

سرکاری/پبلک سیکٹر کے اداروں کے خلاف وصولیوں کا تخمینہ 289 ارب روپے رہا جس میں آئیسکو کا حصہ 97 ارب روپے، لیسکو کا 23 ارب روپے، گیپکو کا 16 ارب روپے،پیسکو کا 46 ارب روپے ہے، دیگر ڈسکوز کے مقابلے میں وصولیوں کی رقم تقریباً 50 ارب روپے تھی۔

لیسکو کی جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) کی مد میں پھنسی ہوئی رقم 24 ارب روپے ہے۔ مزید 65 ارب روپے مختلف عدالتوں میں قانونی چارہ جوئی کے باعث پھنسے ہوئے ہیں۔

عہدیدار نے مؤقف اختیار کیا کہ قانونی چارہ جوئی کی وجہ سے 25 ارب روپے کی رقم پر سود کا مالی اثر سرکلر ڈیٹ میں شامل ہو رہا ہے۔

وزیر بجلی سردار اویس خان لغاری نے وزیر اعلیٰ کے پی کے کو لکھے گئے خط میں کہا ہے کہ پیسکو اور ٹیسکو کم کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی کمپنیوں میں شامل ہیں جو گردشی قرضے میں مسلسل اضافہ کر رہی ہیں۔

خط کے مطابق رواں مالی سال کے دوران پیسکو اور ٹیسکو میں 188 ارب روپے کا مشترکہ نقصان متوقع ہے جس میں انڈر ریکوری اور نیپرا کی حد سے زیادہ نقصان بھی شامل ہے۔

پیسکو میں جن اہم علاقوں نقصانات کی نشاندہی کی گئی ہے ان میں ڈی آئی خان، بنوں، کرک، کوہاٹ، شانگلہ اور سابق ایف آر کے علاقے شامل ہیں۔ ٹیسکو سابق قبائلی علاقوں میں کام کرتا ہے جہاں ریکوری اور نان میٹریلائزیشن کا سنگین مسئلہ ہے جس کی وجہ سے رواں مالی سال میں کمپنی کو 51 ارب روپے تک کا نقصان ہو سکتا ہے۔

حکومت نے چوری کے خلاف مہم شروع کی جس سے چھ ماہ میں صرف 90 ارب روپے حاصل ہوئے۔ اب ایف آئی اے کے اعلیٰ حکام کو ڈسکوز میں تعینات کیا گیا ہے تاکہ وہ بجلی چوروں کے ساتھ ملی بھگت کرنے والے اہلکاروں کی نشاندہی کریں اور قانونی کارروائی کا مشورہ دیں۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر،

Comments

Comments are closed.