وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کی سربراہی میں اعلیٰ اختیاراتی سعودی وفد کے 15-16 اپریل کے دورے کے دونوں ممالک کے لیے مفید نتائج برآمد ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ دورہ اس مہینے کے شروع میں وزیر اعظم شہباز شریف کی سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ بات چیت کے دوران طے پایا تھا۔ جہاں دونوں ممالک نے “5 ارب ڈالر کے سرمایہ کاری پیکیج پر ابتدائی کام کو تیز کرنے کا عزم کیا تھا۔ اب مشاورت کا یہ تازہ دور متعدد شعبوں میں مزید تعاون کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔

اس دورے کے پیچھے جہاں اہم ایجنڈا پاکستان میں سرمایہ کاری کے مختلف مواقع کا جائزہ لینا تھا، وہیں فلسطین کے حوالے سے مشرق وسطیٰ کی بدلیتی صورتحال پر بات چیت بھی ہوئی ۔ جہاں ایران اور اسرائیل آمنے سامنے آچکے ہیں۔

درحقیقت، عالمی جغرافیائی سیاست کے اس نازک لمحے میں سعودی ریاست کے سرکردہ عہدیداروں کا دورہ ،جس کے بعد ولی عہد محمد بن سلمان بھی اگلے ماہ پاکستان کا دورہ کریں گے، خطے میں پاکستان کی اہمیت کی نشاندہی کرتا ہے، ہم سیاسی اور معاشی محاذ پر مثبت پیش رفت کے ذریعے اس صورتحال کو مزید بہتر کرسکتے ہیں۔

صدر، وزیراعظم اور دیگر حکام سے ملاقاتوں کے علاوہ شہزادہ فیصل نے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کے اجلاس میں بھی شرکت کی اور ساتھ ہی مشترکہ صدارت بھی کی جو اس دورے کی سب سے بڑی خاص بات ثابت ہوئی، سعودی پاکستان۔ سرمایہ کاری کانفرنس، جہاں پاکستان نے زراعت، آئی ٹی، کان کنی اور پبلک سیکٹر اداروں سمیت متعدد شعبوں میں دستیاب سرمایہ کاری کے مختلف مواقع کے بارے میں بتایا۔

سعودی عرب اب ریکوڈک کاپر گولڈ پروجیکٹ میں ایک ارب ڈالر تک کی سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار ہے اور مبینہ طور پر کچھ سرکاری اداروں کو خریدنے پر بھی غور کر رہا ہے۔ اگرچہ اس دورے میں کسی بھی مفاہمت کی یادداشت پر دستخط نہیں ہوئے،لیکن سرمایہ کاری کے حوالے سے پرعزم اعلانات کیے گئے ہیں، جو کہ انتہائی حوصلہ افزا ہے۔ اب توقع ہے کہ ولی عہد کے پاکستان کے دورے کے دوران مطلوبہ معاہدوں پر دستخط کیے جائیں گے۔

یہ بات قابل غور ہے کہ حالیہ برسوں میں سعودی عرب اپنی معیشت اور معاشرت میں بڑی تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہے، جس کا اثر دوسرے ممالک سے تعلقات پر بھی پڑا ہے۔

اب اس کی توجہ امدادی پیکج دینے اور دنیا بھر میں مختلف پیداواری شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے سے ہٹ گئی ہے۔ اس لیے پاکستان کے لیے 5 ارب ڈالر کا سرمایہ کاری پیکج اس بدلی ہوئی حقیقت کی نشاندہی بھی کرتا ہے ۔ہمارے پالیسی سازوں کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ہم اس بنیادی تبدیلی سے بھرپور فائدہ اٹھائیں جس سے سعودی سیاست گزر رہی ہے۔

ایسا کرنے کے لیے، ہمیں سیاسی عدم استحکام کے دائمی مسئلے اورہماری معیشت کو درپیش مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے، خصوصی توجہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے کاروبار میں آسانی کو پیدا کرنے پر ہونی چاہیے۔ سیاست کرنے اور معیشت کی تشکیل کے لیے ہمارے طرزعمل نے ہمیں ملک میں موجود صلاحیتوں سے پوری طرح فائدہ اٹھانے سے روکا ہے۔

شاید، ہمیں ہندوستان سے سیکھنے کی ضرورت ہے، جہاں سعودی عرب نے حالیہ برسوں میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے، اور بھارت 2022-23 میں سعودی عرب کے دوسرے سب سے بڑے تجارتی شراکت دار کے طور پر ابھرا ہے۔ دونوں ممالک نے تیل اور پیٹرولیم سے لے کر زراعت، قابل تجدید توانائی، بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سمیت مختلف شعبوں میں اپنے اقتصادی تعلقات کو گہرا کیا ہے۔

ہمیں اپنی معیشت کے مختلف شعبوں میں دلچسپی بڑھانے کے لیے اسی طرح حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔ یہاں ایک معاملہ ہمارا طویل عرصے سے جمود کا شکار زرعی شعبہ ہو سکتا ہے، جس کو دوبارہ زندہ کرنے کیلئے پیش رفت کی جاسکتی ہے، اس لیے کہ حالیہ برسوں میں سعودی عرب نے بین الاقوامی سطح پر بھاری سرمایہ کاری کرتے ہوئے یقینی بنایا ہے کہ ان اہم اجناس کی پیداوار حاصل کی جائے جو مقامی طور پر پیدا نہ ہوتے ہوں،یہ اسکی فوڈ سکیورٹی کیلئے بھی اہم ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ہماری معیشت کیلئے سعودی عرب کی جانب سے ملنے والا موقع لامحدود فائدہ کا باعث ہوسکتا ہے، ہمیں بلا تاخیراس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر،

Comments

Comments are closed.