مارچ 2024 میں ترسیلات زر بڑھ کر 2,953.7 ملین ڈالر تک پہنچ گئیں جو ایک ماہ قبل 2,250.1 ملین ڈالر تھیں (31.2 فیصد کا اضافہ) ترسیلات زر میں مارچ 2023 کے 2,536.7 ملین ڈالر کے مقابلے میں 16.4 فیصد اضافہ ہوا۔ رواں مالی سال کے لیے جولائی تا مارچ کے اعداد و شمار 21,036.8 ملین ڈالر تھے، جو کے گزشتہ مالی سال 20,844.8 ملین ڈالر تھے،یعنی اس میں اضافہ ایک فیصد سے بھی کم رہا بلکہ 0.92 فیصد رہا۔
اکتوبر 2022 سے جون 2023 کے آخر تک ترسیلات زر کی آمد میں بڑے پیمانے پر کمی ناقص معاشی پالیسیوں کے نفاذ کی وجہ سے تھی، اسی لئے اس وقت آئی ایم ایف معاہدے کی خلاف ورزی کی وجہ سے قرض پروگرام معطل ہوگیا تھا، جس کے نتیجے میں دوست ممالک نے بھی مالی مدد روک لی تھی۔ جس پر اس وقت کے وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو نظرانداز کرکے آئی ایم ایف کے ساتھ براہ راست بات چیت کی، جس کا اختتام 29 جون 2023 کو اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ پرسٹاف لیول معاہدے پر ہوا۔ یہ معاہدہ رواں ماہ اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔
آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ شرائط پر عمل درآمد کے باوجود موجودہ سال کے پہلے نو ماہ میں ترسیلات زر میں کمی تشویشناک ہے۔ پچھلے سال کے مقابلے کی اسی میں مدت میں اس میں ایک فیصد اضافہ ہوا تھاجو بلاشبہ بہت سے لوگوں کو سوچنے پر مجبور کریگا کہ روپے اور ڈالر کو مصنوعی طور پر کنٹرول کرنے سے پہنچنے والا نقصان آج بھی برقرار ہے اورسرکاری چینلز کے ذریعے رقم بھیجنے والوں کا اعتماد بحال نہیں ہوا۔ لاک ڈاؤن کے دوران غیر قانونی ہنڈی/حوالہ سسٹم کام نہیں کر رہا تھا تو سرکاری چینلز ہی رقم بھیجنے کا واحد ذریعہ تھا۔
بہر حال، مارچ 2024 میں ترسیلات زر کی آمد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور یہ اضافہ رمضان کے آخر میں معمول کے مطابق ہے، جو تقریباً یقینی طور پر ایک اور اہم عنصر ہے اور وہ ہے شرح مبادلہ کا فرق۔ پچھلے سال مارچ کی اوسط انٹربینک روپے اور ڈالر کی برابری، جس شرح پر سرکاری ترسیلات زر کی آمد کا حساب لگایا جاتا ہے، ڈالر کے مقابلے میں 280.2 روپے تھا، جو یکم مارچ کو 266.23 روپے، 9 مارچ کو 276.3 روپے، 25 مارچ کو 283.1 روپے اور 31 مارچ کو283.1 روپے تھا۔ مارچ 2024 میں ڈالر کم از کم 277.58 روپے کا تھا، سب سے زیادہ 279.4 روپے کا تھا اور اوسط شرح 278.6 تھی۔ دوسرے لفظوں میں زر مبادلہ کی شرح ترسیلات زر کو بڑھانے میں کوئی بڑا عنصر نہیں ثابت ہوئی۔
کیا افراط زر ایک معاون عنصر ہو سکتا ہے؟ مارچ 2023 میں کنزیومر پرائس انڈیکس مارچ 2024 میں 20.7 فیصد کے دعوی کردہ سی پی آئی کے مقابلے میں 35.4 فیصد کی بلند ترین سطح پر تھا۔ جب کہ آزاد ذارئع بتاتے ہیں کہ مہنگائی کے 2024 کے اعداد و شمار کو 2 سے 3 فیصد کم دکھایا گیا۔ اس کے باوجود اس سال مہنگائی میں کمی گزشتہ سال کے مقابلے میں نمایاں ہے۔
اس مثبت پیش رفت کی نفی اس حقیقت سے ہوتی ہے کہ اوسط افراط زر جولائی تا مارچ 2024 پچھلے سال کی اسی مدت کے مقابلے میں صرف معمولی طور پر کم ہواہے ، جو27.06 فیصد کے مقابلے میں 27.26 فیصد رہا۔ تاہم، پچھلے سال کے مقابلے موجودہ مالی سال کے دوران بلند افراط زر کا مجموعی اثر وہ عنصر ہو سکتا ہے جس نے ترسیلات زر بھیجنے والوں کو پہلے سے زیادہ سرکاری چینل استعمال کرنے پر مجبور کیا ہو(فروری اور مارچ 2024 میں ایک سال پہلے کے اسی دو ماہ کے مقابلے میں کمی کو چھوڑ کر)۔
یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ اگلے دو ماہ کے اعداد و شمار اس بات کا تعین کرنے کیلئے اہم عنصر ہونگے کہ آیا سرکاری چینلز کے ذریعے ترسیلات زر کا بہاؤ بحال ہوگیا ہے،جس میں اسحاق ڈار کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے 4 ارب ڈالر سالانہ تک کمی ہوچکی ہے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر
Comments
Comments are closed.