اداریہ

اقتصادی ترقی کی تلاش

پاکستان کی معیشت کو آئی ایم ایف پروگرام کے علاوہ اصلاحات کی سخت ضرورت ہے۔ ہماری معیشت بیل آؤٹ پیکج کی عادی ہے اور...
شائع April 5, 2024

پاکستان کی معیشت کو آئی ایم ایف پروگرام کے علاوہ اصلاحات کی سخت ضرورت ہے۔ ہماری معیشت بیل آؤٹ پیکج کی عادی ہے اور ملک میں عام تاثر یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط کی تعمیل اور ان کا کامیاب جائزہ انتہائی ضروری اصلاحات پر عمل کا نتیجہ ہے۔

یہ ایک سراسر ایک غلط فہمی ہے۔ اس لیے حکومت اور خاص کر اقتصادی منتظمین کو واضح الفاظ میں بتادینا چاہیے کہ آئی ایم ایف صرف اس بات کو یقینی بنانے کے لیے موجود ہے کہ ملک اپنے بیرونی مالیاتی وعدوں پر قائم رہے، معیشت میں اصلاحات اور نمو پیدا کرنا آئی ایم ایف کا مینڈیٹ نہیں ہے۔

پاکستان کو دائمی معاشی بحران سے نکلنے کے لیے مقامی حل کی ضرورت ہے۔ ایسی ہی اصلاحات پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (PIDE) کی طرف سے تجویز کی گئی ہے، جو زور دے رہی ہے کہ مارکیٹ کو لبرلائزیشن کی طرف لے جائے۔ یہ PIDE تھیسس کا مرکزی نقطہ ہے جیسا کہ اس کے وائس چانسلر ندیم الحق نے بیان کیا ہے۔

خیال یہ ہے کہ ٹیکس اور منظوری کے نظام کو آسان بنایا جائے، مختلف شعبوں کے اثاثوں خاص کر رئیل اسٹیٹ کے اثاثو کا درست اندازہ لگایا جائے۔ ندیم حق اور ان کا ادارہ صلاحیت کو بڑھانے کرنے کے لیے ڈی ریگولیشن کا حامی ہے۔

کاروبار کے لیے ریگولیٹری تقاضوں کو کم کر کے حکومت اور پالیسی سازتاجروں کو آزادانہ طور پر سوچنے کے قابل بنا سکتے ہیں، کیونکہ اس وقت چھوٹے کاروبار کے مالکان اپنے وسائل کا بڑا حصہ ریگولیٹری تعمیل کو پورا کرنے پر خرچ کررہے ہیں۔

اس وقت ٹیکس شرح کافی بلند اور انکو ادا کرنے کے بہت سارے طریقہ کار ہیں، جو تاجروں کو ترغیب دیتی ہیں کہ وہ فروخت کا ایک خاص حصہ غیر رستاویزی رکھیں اور غیر رسمی طور پر کام کرتے رہیں۔ اس صورتحال کو طریقہ کار آسان بنانے اور تمام شعبوں میں یکساں ٹیکس لگانے سے بہتر کیا جا سکتا ہے۔

تاہم، مسئلہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے اقتصادی اصلاحات کا تصور بڑی حد تک نام نہاد ”سخت فیصلے“ لینے تک محدود ہے جیسے کہ گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کر کے گردشی قرضوں میں اضافے کو روکنا۔ یہ یقینی طور پر اصلاحات نہیں بلکہ صرف لاگت کی وصولی ہے ۔ ایسا کرنے کے لیے آئی ایم ایف کا دباؤ بھی ہے۔ چونکہ حکومت توانائی کے شعبہ کی اصلاحات میں ناکم رہی ہے تواس کے پاس واحد راستہ قیمتیں بڑھنا ہے۔

ایک اور مثال ٹیکس دہندگان کے موجودہ پول پر زیادہ ٹیکس کی شرح کا نفاذ ہے (کارپوریٹ پر سپر ٹیکس کا نفاذ اور جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) کی اعلی شرح 18 فیصد ہے) جبکہ ٹیکس نیٹ سے باہرلوگوں کو مکمل نظر انداز کردیا گیا ہے۔ یہ درست طریقہ نہیں ہے اور معیشت کو آئی ایم ایف پروگرام سے آزاد نہیں ہونے دے گا۔

اسی طرح کا دعویٰ واشنگٹن میں قائم انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل فنانس (IIF) بھی کر رہا ہے۔ اس کے مطابق، شرح مبادلہ میں ایڈجسٹمنٹ، شرح سود، توانائی کی سبسڈی اور SOEs کی اصلاحات میں پیش رفت پاکستان کے لیے آئی ایم ایف پروگرام کو حاصل کرنے کے لیے کافی ہے، لیکن اس کے سامنے دیگر بڑے چیلنجز بھی ہیں۔

فہرست میں سب سے اوپر مالی استحکام ہے، کیونکہ اس کی عدم موجودگی نے قرضوں کے جال کو جنم دیا ہے۔ اور مالیاتی استحکام لانے کیلئے سب سے بڑا چیلنج سیاسی عدم استحکام ہے۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ملک کے مقبول ترین رہنما عمران خان اور طاقتور فوج کے درمیان لڑائی سیاسی عدم استحکام پیدا کر رہی ہے اور یہ انتہائی ضروری مالی استحکام کے حصول میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔

تاہم، تمام قسم کی آمدنیوں پر بورڈ ٹیکسیشن میں کمی کے ضوابط اور یکساں مالیاتی استحکام کے ذریعے حقیقی اصلاحات کے امکانات ایک خواب ہی رہیں گے اور سیاسی استحکام حاصل ہونے تک معیشت مشکلات میں رہ سکتی ہے ۔ اس لیے وقت ضائع کیے بغیر ملکی اسٹیبلشمنٹ سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان زیادہ سے زیادہ مکالمے کی ضرورت ہے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

200 حروف