پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس (پی بی ایس) نے مارچ 2024 کے کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) کا سالانہ تخمینہ 20.7 فیصد لگایا ہے جو مارچ 2023 میں 35.4 فیصد تھا۔ مارچ 2023 میں اس وقت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈالر کی قیمت کو کم کیا، جس کا مقصد درآمدات کو مصنوعی طور پر سستا کرنا تھا، حالانکہ اس سے ملک کو سرکاری چینلز کے ذریعے ترسیلات زر میں 4 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔

اسحاق ڈار کی جانب سے یوٹیلیٹیز، خاص طور پر گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے لیے منظور شدہ اقدامات پر عمل درآمد کی مخالفت سے بھی مہنگائی میں کمی نہیں ہوسکی۔

آزاد معاشی ماہرین مہنگائی کے حالیہ اعداد و شمار کو چند بنیادوں پر چیلنج کرتے ہیں کہ (i) اس میں سبسڈی کی وجہ سے گیس اور بجلی کی کم قیمتیں لی گئی ہیں، نہ کہ وہ قیمتیں جو اشیاء کی قیمتوں کو بہتر انداز میں ظاہر کرتی ہیں (ii) گیس کی قیمت میں حالیہ اضافے کو 100 فیصد سے زیادہ نہیں مانا گیا۔ (iii) اس میں مصنوعات کے درمیان ہم آہنگی کی کمی ہے۔ مثال کے طور پر سیمنٹ اور کرائے کی قیمتوں کے معاملے میں افراط زر کے اثرات کو ہم آہنگ نہیں کیا گیا۔

مہنگائی میں کمی کے تاثر کی اس حقیقت سے نفی ہو جاتی ہے کہ جولائی 2022سے مارچ2023 کا حساس قیمت انڈیکس 30.50 فیصد اضافہ تھا، جبکہ رواں برس اسی مدت میں یہ اضافہ 31.26 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ 28 مارچ 2024 کو ختم ہونے والے ہفتے میں مہنگائی 29.41 فیصد کی سطح پر تھی۔ اس کے علاوہ، گزشتہ مالی سال کے لیے جولائی تا مارچ کی اوسط مہنگائی 27.26 فیصد تھی جو رواں سال 27.06 فیصد رہی ۔

حیران کن طور پر، شہری علاقوں میں مہنگائی میں رواں سال 27.13 فیصد اضافہ ہوا جو گزشتہ سال 25.04 فیصد تھا اور دیہی علاقوں میں مہنگائی گزشتہ سال 30.56 فیصد سے کم ہو کر رواں سال 26.97 فیصد پر پہنچ گئی - یہ کمی شاید اس سال فصلوں کی بہتر پیداوار کی وجہ سےہوئی ۔ تاہم یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ فصلیں کل جی ڈی پی کے 10 فیصد سے کم ہیں، یہی وجہ ہے کہ فصلوں کی بہتر پیداوار دوسری سہ ماہی کے لیے جی ڈی پی کو بڑھانے میں ناکام رہی، جس نے موجودہ برس پہلی سہ ماہی میں 2.5 فیصد کے مقابلے میں 1 فیصد کی کمی درج کی۔

شہری اور دیہی علاقوں میں افراط زر کی شرحوں کے درمیان فرق کی وجہ نقل و حمل کی لاگت میں اضافہ بھی ہو سکتی ہے، جس کی وجہ مارکیٹ کے مطابق روپے کی قدر کا تعین اور 60 روپے کی ریکارڈ پیٹرولیم لیوی بھی ہے۔

تھوک کی قیمت کا جو اشاریہ جولائی 2022 سے مارچ 2023 تک 34.15 فیصد تھا وہ رواں سال گرکر 23.43 فیصد تک پہنچ گیا۔ تھوک قیمت میں اس کمی کا اظہار صنعتی شعبے سے نہیں ہوتا ہے جوبجلی، گیس اور کریڈٹ کی دستیابی پر لاگت میں اضافے پر تشویش کا اظہار کر رہا ہے - جس میں 2004 کے مقابلے میں گزشتہ سال 54.1 فیصد کی بڑی کمی واقع ہوئی۔

اس تمام صورتحال میں تجارتی توازن میں بہتری آئی ہے۔ جولائی 2022 تا مارچ2023 تجارتی خسارہ 22.68 ارب ڈالر رہا، جو رواں سال اس مدت میں 17 ارب ڈالر تک کم ہوگیا۔ یہ کمی خام مال کی درآمدات کم کرنے کی وجہ سے ہوئی جو کم جی ڈی پی کی نمو میں معاون ہے۔

اس دوران برآمدات میں 8.93 فیصد اضافہ ہوا، جو تمام درآمدات کا 57 فیصد بنتا ہے جبکہ گزشتہ سال یہ 48 فیصد تھا، یہ سب درآمدات پر کنٹرول کو جاری رکھنے کی وجہ سے ہوا،جو آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق ہے۔

غیر ملکی کرنسی کا ملک سے مسلسل انخلا، تجارتی عدم توازن اور بیرونی قرضے شدید تشویش کا باعث ہے ، جس کی وجہ سے نو منتخب حکومت ایک اور آئی ایم ایف پروگرام لینے کا اعلان کیا ہے۔، جو ملک کی مالی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے اہم ہے۔

اس صورتحال میں ملکی ٹیکس محصولات، بیرونی اور ملکی قرضے، اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو بڑھانے پر توجہ دینے کے بجائے بجٹ کٹوتیوں اور اصلاحات نافذ کرنے کی تجویر بھی دی جارہی ہیں۔ خاص طور پر پنشن اصلاحات بہت ضروری ہیں۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر

Comments

200 حروف