وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے پیر کے روز کہا کہ اصلاحات کے ایجنڈے پر قائم رہنے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے تاکہ یہ آخری عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پروگرام ثابت ہو سکے، اور طویل مدتی اقتصادی ترقی کو یقینی بنایا جا سکے۔
وزیر خزانہ نے پیر کے روز قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے لیے کثیر الجہتی اور دو طرفہ شراکت داروں کے ساتھ ساتھ مقامی تھنک ٹینکس کا مرکزی پیغام یہی ہے کہ اصلاحات کے ایجنڈے پر قائم رہنا ضروری ہے، جس میں ٹیکس، توانائی، اور سرکاری اداروں (ایس او ایز) کے علاوہ عوامی مالیات بھی شامل ہیں۔
کمیٹی کا اجلاس سید نوید قمر کی زیر صدارت ہوا، جس میں آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے وعدوں، آمدنی کے اقدامات اور صوبوں کی توقعات پر بات چیت کی گئی۔
چونکہ اس بحث کی حساسیت کی وجہ سے محکمہ نے ان کیمرہ اجلاس کی درخواست کی تھی، اس لیے کمیٹی نے جزوی طور پر اس پر اتفاق کیا، جس میں مخصوص بحث اور سوال و جواب کو ان کیمرہ رکھنے کی اجازت دی گئی۔
وزیر خزانہ نے کمیٹی کو آئی ایم ایف کے ساتھ حکومت کے وعدوں، مقداری کارکردگی کے معیار، مالیاتی، حکومتی، سماجی، مالیاتی اور توانائی کے شعبے، ایس او ایز اور سرمایہ کاری کی پالیسی پر اسٹرکچرل بینچ مارکس، مسلسل کارکردگی کے معیار، اشارتی اہداف اور صوبوں سے توقعات کے بارے میں بریف کیا۔
کمیٹی کو حکومت کی جانب سے کیے گئے کامیاب اقدامات سے بھی آگاہ کیا گیا، جن میں حکومت کو اسٹیٹ بینک کے قرض کی نئی فراہمی کا صفر ہونا، ڈپازٹ انشورنس قانون کی اصلاح، اور حکومت کے ابتدائی بجٹ خسارے پر حد مقرر کرنا شامل ہیں۔
وزیرخزانہ نے یہ بھی انتباہ کیا کہ اگر ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو نہ پایا گیا تو اقتصادی اصلاحات بے معنی ہوں گی۔ انہوں نے آبادی کے اضافے کو پاکستان کے طویل مدتی اقتصادی استحکام کے لیے سب سے بڑے چیلنجز میں سے ایک قرار دیا۔
وزیر خزانہ نے حالیہ اقتصادی بہتریوں پر بھی روشنی ڈالی، خاص طور پر ہرائمری اور کرنٹ اکائونٹ میں خسارے سے سرپلس کی طرف بڑا رجحان اور غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ، جو دو سے ڈیڑھ ماہ کی درآمدات کے لیے کافی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ 12 سے 14 ماہ میں بہت کچھ بہتر ہوا ہے۔ معاشی استحکام حاصل ہو چکا ہے، کرنسی مستحکم ہے، غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم ہو چکے ہیں، اور مہنگائی میں کمی آئی ہے۔
اورنگزیب نے کہا کہ مہنگائی 38 فیصد سے کم ہو کر پانچ فیصد سے بھی نیچے آ گئی ہے، جبکہ پالیسی کی شرح 22 فیصد سے کم ہو کر 15 فیصد ہو گئی ہے، جس سے نجی شعبے کی کریڈٹ کی نمو میں اضافہ ہوا ہے، مارچ سے جون تک غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر تین ماہ کی درآمدات کے لیے کافی ہوں گے۔
انہوں نے توانائی اور اقتصادی اصلاحات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف کے زیر التواء اہداف کے حصول کے علاوہ نجکاری اور رائٹ سائزنگ کے اقدامات پر بھی کام جاری ہے۔ حکومت ورلڈ بینک کے ساتھ ایک 10 سالہ ماحولیاتی تبدیلی کے پروگرام پر کام کر رہی ہے۔
وفاقی وزیر نے ورلڈ بینک کے ساتھ آنے والے 10 سالہ کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک کی تفصیلات بھی شیئر کیں، جس میں کہا گیا کہ پاکستان اس فریم ورک میں شامل ہونے والا پہلا ملک ہو گا۔ انہوں نے زور دیا کہ یہ فریم ورک ان مشکلات کو حل کرے گا جو پاکستان کو درپیش ہیں، جن میں آبادی کی بڑھوتری، بچوں میں غذائی کمی اور ماحولیاتی تبدیلی شامل ہیں، اور حکومت کے پائیدار ترقی کے عزم کو اجاگر کیا۔
کمیٹی کی ایک اہم بحث صوبائی حکومتوں کے آئی ایم ایف کے اہداف کو پورا کرنے میں کردار پر تھی، خاص طور پر زرعی آمدنی کے ٹیکس کی اصلاحات کے حوالے سے بات کی گی۔
وزیر خزانہ نے کمیٹی کو بتایا کہ تمام صوبوں کو موجودہ آئی ایم ایف پروگرام سے قبل اعتماد میں لیا گیا تھا اور صوبوں کو وفاقی ٹیکس کوڈز کے مطابق اپنی زرعی آمدنی کی قانون سازی میں ترمیم کرنی ہوگی، جس کا نفاذ جنوری 2025 سے کیا جائے گا۔
کمیٹی نے آمدنی میں اضافے کی ضرورت کو تسلیم کیا لیکن زرعی آمدنی کے ٹیکس کو تین گنا بڑھانے کے ممکنہ منفی اثرات پر تشویش کا اظہار کیا۔ ایک تجویز دی گئی کہ ٹیکس کی تعمیل بڑھانے کے لیے ترغیبی کم شرحیں متعارف کرائی جائیں۔
وزیر خزانہ نے کمیٹی کو یقین دہانی کرائی کہ وہ صوبائی حکام کے ساتھ مل کر ٹیکس کی تعمیل کو بڑھانے اور ٹیکس کے دائرہ کار کو وسیع کرنے کے لیے ایک جامع منصوبہ تیار کریں گے۔
ایف بی آر کے چیئرمین نے کمیٹی کو آمدنی میں کمی اور ان کمیوں کو پورا کرنے کے لیے تجویز کردہ اقدامات کے بارے میں بریف کیا۔
کمیٹی نے ایف بی آر کے چیئرمین سے اگلی ملاقات میں تبدیلی کے منصوبے پر مکمل بریفنگ کا مطالبہ کیا۔
کمیٹی نے وزیر خزانہ سے اگلی ملاقات میں اسٹرکچرل بینچ مارکس، کارکردگی کے معیار اور اشارتی اہداف پر تفصیلی بریفنگ کا بھی مطالبہ کیا۔
کمیٹی کو دی گئی بریفنگ میں یہ بھی بتایا گیا کہ حکومت ستمبر 2024 کے آخر تک کچھ اشارتی اہداف پورا کرنے میں ناکام رہی، جن میں مقامی کرنسی کے داخلی قرض سیکیورٹیز اسٹاک کے لیے اوسط مدتی وقت کی بنیاد پر حد، عمومی حکومت کے بجٹ کی صحت اور تعلیم کے اخراجات پر حد، اور ایف بی آر کے ذریعہ جمع شدہ ٹیکس کی مجموعی حد شامل ہیں۔
کمیٹی کو یہ بھی بتایا گیا کہ پروگرام کے 22 اسٹرکچرل بینچ مارکس ہیں جن میں سے وفاقی حکومت کو 18 اور اسٹیٹ بینک کو 4 پر عملدرآمد کرنا ہے۔ کمیٹی کو یہ بھی بتایا گیا کہ حکومت کو کسی قسم کی ٹیکس مراعات دینے کی اجازت نہیں ہے اور نہ ہی وہ نیٹ سپلیمنٹری گرانٹ جاری کر سکتی ہے۔
گیس کے شعبے میں کیپٹو پاور پلانٹس کو گیس کی فراہمی روک دینی ہوگی، وزیر خزانہ کے سیکریٹری نے بتایا۔ انہوں نے مزید کہا کہ وفاقی حکومت کے افسران کی طرح صوبائی افسران کو بھی اپنی جائیدادوں کی تفصیلات فراہم کرنا ہوں گی۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024