ایک سینئر یوکرینی فوجی ذرائع نے بتایا ہے کہ روسی افواج کی جانب سے سخت جوابی حملوں کی لہر کے نتیجے میں یوکرین نے روس کے کرسک خطے کے 40 فیصد سے زائد علاقے پر کنٹرول کھو دیا ہے۔ یہ علاقہ یوکرینی افواج نے اگست میں اچانک حملے کے دوران تیزی سے قبضے میں لے لیا ہے۔
یوکرین کے جنرل اسٹاف میں شامل ذرائع نے بتایا کہ روس نے کرسک کے علاقے میں تقریبا 59,000 فوجی تعینات کیے ہیں کیونکہ کیف کی افواج نے تیزی سے پیش قدمی کی تھی اور اس دوران ماسکو کو اس حوالے سے غیر تیار پایا گیا تھا۔ ذرائع نے کہا کہ سب سے زیادہ ہم تقریباً 1,376 مربع کلومیٹر (531 مربع میل) علاقے پر قابض تھے لیکن اب زیر قبضہ علاقے کی حدود کم ہوگئی ہے کیوں کہ روس جوابی حملے کررہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب ہم تقریباً 800 مربع کلومیٹر (309 مربع میل) پر قابض ہیں اور ہم اس علاقے کو اس وقت تک کنٹرول میں رکھیں گے جب تک یہ عسکری اعتبار سے اہمیت کا حامل رہے گا۔کرسک حملہ دوسری جنگ عظیم کے بعد کسی غیر ملکی طاقت کی طرف سے روس پر پہلا زمینی حملہ تھا اور اس وقت ماسکو اس حملے کو روکنے کیلئے تیار نہیں تھا۔
کرسک میں پیش قدمی کے ساتھ، کیف کا مقصد مشرقی اور شمال مشرقی یوکرین میں روسی حملوں کو روکنا، روس کو مشرق میں آہستہ آہستہ پیش قدمی کرنے والی افواج کو پیچھے ہٹانے پر مجبور کرنا اور مستقبل میں امن مذاکرات میں میں پوزیشن مضبوط کرنا ہے۔
لیکن روسی افواج اب بھی یوکرین کے مشرقی علاقے ڈونیٹسک میں مسلسل پیشقدمی کررہی ہیں۔
یوکرین کے جنرل اسٹاف کے ذرائع نے اس بات کا اعادہ کیا کہ شمالی کوریا کے تقریبا 11,000 روس کی مدد کیلئے کرسک کے علاقے میں پہنچ چکے ہیں لیکن ان میں سے بیشتر کی تربیت حتمی مراحل میں ہے۔
روسی وزارت دفاع نے فوری طور پر کرسک خطے میں کیف کے تازہ ترین جائزے پر تبصرے کے لیے رائٹرز کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔ رائٹرز ان اعداد و شمار یا بیانات کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کر سکا۔
ماسکو نے کرسک میں شمالی کوریا کی افواج کی موجودگی کی تصدیق کی ہے اور نہ ہی اس کی تردید کی ہے۔
یوکرین کی مسلح افواج کے سربراہ نے 11 نومبر کو کہا تھا کہ اس کی افواج نہ صرف کرسک میں روسی کمک سے نبرد آزما ہیں بلکہ مشرقی یوکرین میں محصور دو محاذوں کو مضبوط بنانے اور جنوب میں فوج کے زمینی حملے کی تیاری بھی کر رہی ہیں۔
مشرقی یوکرین میں روسی پیش قدمی کا خطرہ
جنرل اسٹاف کے ذرائع نے بتایا کہ کورکھوو کا علاقہ کیف کے لیے اس وقت سب سے زیادہ خطرہ ہے کیونکہ روسی افواج وہاں روزانہ 200 سے 300 میٹر (گز) کی رفتار سے پیش قدمی کر رہی ہیں اور کچھ علاقوں میں بکتر بند گاڑیوں کے ساتھ داخل ہونے میں کامیاب ہو گئی ہیں۔
کورکھوو کا قصبہ ڈونیٹسک خطے میں اہم لاجسٹک مرکز پوکروفسک کی طرف ایک قدم ہے۔
یوکرین کے جنرل اسٹاف کے ذرائع نے بتایا کہ اس وقت یوکرین میں مجموعی طور پر روس کے تقریبا 575،000 فوجی لڑ رہے ہیں اور اس کا ہدف تعداد کو تقریبا 690،000 تک بڑھانا ہے۔
روس نے اپنی لڑائی میں شامل افراد کی تعداد ظاہر نہیں کی ہے اور رائٹرز آزادانہ طور پر ان اعداد و شمار کی تصدیق نہیں کر سکا۔
چونکہ یوکرین ایک بڑے اور بہتر ہتھیاروں سے لیس دشمن سے لڑ رہا ہے کیف نے روس کے اندر روسی ہتھیاروں اور گولہ بارود کے ڈپو ، ہوائی اڈوں اور دیگر فوجی اہداف کو نشانہ بنا کر روسی لاجسٹکس اور سپلائی چین میں خلل ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
یوکرین کو اس ماہ کے اوائل میں ایسا کرنے کی کھلی چھوٹ اس وقت ملی تھی جب اس معاملے سے واقف ذرائع کے مطابق صدر جو بائیڈن نے شمالی کوریا کے جنگ میں داخلے کے جواب میں روس کے اندر واقع اہداف پر امریکی فراہم کردہ میزائل داغنے پر اپنی مخالفت ختم کر دی تھی۔
گزشتہ ہفتے یوکرین نے روس پر امریکی اے ٹی اے سی ایم ایس اور برٹش اسٹورم شیڈو کروز میزائل داغے تھے۔ اے ٹی اے سی ایم ایس کے اہداف میں سے ایک روس کے اندر تقریبا 110 کلومیٹر (70 میل) دور ہتھیاروں کا ایک ڈپو تھا۔
ماسکو نے یوکرین کے مغربی حامیوں کی جانب سے بڑھتی ہوئی کشیدگی کا جواب دینے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ جمعرات کے روز روس نے یوکرین کے شہر نیپرو میں درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے ایک نئے بیلسٹک میزائل سے حملہ کیا تھا۔
یوکرین کے حکام امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ نئے فضائی دفاعی نظام کے بارے میں بات چیت کر رہے ہیں جو یوکرین کے شہروں اور شہریوں کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے نئے فضائی خطرات سے بچانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
یوکرین کے جنرل اسٹاف کے ذرائع نے بتایا کہ فوج نے دارالحکومت کیف پر فضائی دفاع کو مضبوط بنانے کے لئے بھی اقدامات کیے ہیں اور شمال میں سومی شہر اور شمال مشرق میں خارکیف کے لئے بھی اسی طرح کے اقدامات کی منصوبہ بندی کی ہے۔
روس اب یوکرین کے پانچویں حصے پر قابض ہے اور صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ کیف نیٹو فوجی اتحاد میں شامل ہونے کے عزائم ترک کر دیں اور یوکرین ان چار خطوں سے پیچھے ہٹ جائے جس پر اس کا جزوی طور پر قبضہ ہے۔ کیف نے ان مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ مطالبات تسلیم کرنا ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہے۔