اسد رسول کو پی آئی اے ہولڈنگ کمپنی لمیٹڈ (پی آئی اے ایچ سی ایل) کا چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) مقرر کردیا گیا ہے۔ فیصلے کا اطلاق 10 اپریل یعنی آج سے ہوگا۔

لسٹڈ کمپنی نے جمعرات کو پاکستان اسٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) کو اپنے نوٹس میں اس پیش رفت سے آگاہ کیا۔

پی آئی اے کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اسد رسول کو اے وی ایم محمد عامر حیات کی جگہ 10 اپریل 2025 سے پی آئی اے ایچ سی ایل کا چیف ایگزیکٹو آفیسر مقرر کیا گیا ہے۔

پی آئی اے ایچ سی ایل ایک پبلک لمیٹڈ کمپنی ہے جو اس وقت حکومت پاکستان کی ملکیت ہے۔

یہ کمپنی پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کارپوریشن لمیٹڈ کے مخصوص اثاثے، واجبات اور ذیلی ادارے سنبھالنے کے لیے قائم کی گئی تھی جن میں پی آئی اے سی ایل کے مخصوص کاروبار، جائیداد، حقوق، ذمہ داریاں اور فرائض شامل ہیں۔

اے وی ایم محمد عامر حیات نے دسمبر 2024 میں پی آئی اے ایچ سی ایل اور پی آئی اے سی ایل دونوں کے سی ای او کی حیثیت سے اپنی مدت پوری کی۔ انہیں 2023 میں ایک سال کے لیے پی آئی اے کا سی ای او مقرر کیا گیا تھا کیونکہ اس وقت کی حکومت نے خسارے میں چلنے والے ریاستی زیر ملکیت ادارے (ایس او ای) کی نجکاری کا منصوبہ بنایا تھا جس پر سیکڑوں ارب کے واجبات ہیں۔

تاہم خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) نے 21 سال میں پہلی بار خالص منافع حاصل کیا ہے۔ قومی ایئرلائن نے سال 2024 میں 3.9 ارب روپے کا آپریشنل منافع اور 2.26 ارب روپے کا خالص منافع ظاہر کیا۔

وزیر دفاع خواجہ آصف نے اس کامیابی کا باضابطہ اعلان کرتے ہوئے کہا کہ پی آئی اے کی منافع کی جانب واپسی سے نہ صرف ایئرلائن کی ساکھ میں اضافہ ہوگا بلکہ پاکستان کی معیشت کو بھی فائدہ ہوگا۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ مضبوط مالی کارکردگی ایئرلائن کی نجکاری کے منصوبوں کے لئے خاص طور پر اہم ہے۔

پی آئی اے کی نجکاری اسلام آباد میں حکام کے لیے ایک تشویش کا باعث رہی ہے، کیونکہ حکومت ایک عرصے سے قرضوں میں ڈوبی ہوئی اس ایئرلائن میں 51 فیصد سے 100 فیصد تک کا حصہ فروخت کرنے کی پیشکش کر رہی تھی۔ یہ اقدام ان اصلاحات کا حصہ تھا جن پر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے زور دیا جا رہا تھا۔ پاکستان کا آئی ایم ایف کے ساتھ 37 ماہ پر مشتمل 7 ارب ڈالر کا بیل آؤٹ پروگرام جاری ہے۔

تاہم طویل تاخیر کے بعد، حکومت کو صرف ایک ہی بولی موصول ہوئی — بلو ورلڈ کنسورشیم کی جانب سے، جس نے پی آئی اے میں 60 فیصد حصے کے لیے 10 ارب روپے کی پیشکش کی جبکہ نجکاری کمیشن نے اس کے لیے کم از کم بولی 85 ارب روپے مقرر کی تھی۔

حکومت نے یہ بولی مسترد کر دی اور نجکاری کا ایک نیا مرحلہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

Comments

200 حروف