لبنان کے دارالحکومت بیروت میں منگل کو اسرائیلی حملے میں حزب اللہ کے ایک اہلکار حسن بدیر جاں بحق ہوگئے جو فلسطینی امور کے نگران تھے۔ یہ لبنان میں حزب اللہ کے مضبوط قلعے پر چند دنوں میں دوسرا حملہ تھا کیوں کہ چار ماہ سے جنگ بندی جاری تھی۔

لبنان کے رہنماؤں نے اس حملے کی مذمت کی، جو عید الفطر کی تعطیلات کے دوران صبح تقریباً 3:30 بجے بغیر کسی انتباہ کے کیا گیا۔

وزارت صحت نے چار افراد کے جاں بحق ہونے کی اطلاع دی، جن میں ایک خاتون بھی شامل ہے۔ اسرائیل اور حزب اللہ نے علیحدہ علیحدہ بیان میں حسن بدیر کی موت کی تصدیق کی ہے جنہیں ایران سے وابستہ گروپ کے ایک ذرائع نے ”فلسطینی فائل کے نائب سربراہ“ کے طور پر شناخت کیا۔

اس ذرائع نے، جو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کر رہا تھا، بتایا کہ بدیر حملے کے وقت اپنے خاندان کے ساتھ گھر پر موجود تھے۔

اے ایف پی کے ایک صحافی کا کہنا ہے کہ اس حملے میں ایک کثیر المنزلہ عمارت کی بالائی منزلیں تباہ ہو گئیں۔

اس عمارت کے سامنے رہائش پذیر اسماعیل نورالدین نامی شخص نے دھماکے کو ’بہت بڑا ’ بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس کے بعد دھول اور دھویں کے بادل اتنے گہرے ہوگئے تھے کہ ہمارے اہلخانہ کے افراد ایک دوسرے کو دیکھنے تک سے قاصر تھے۔

اس سے قبل اسرائیل نے جمعے کے روز لبنان کے دارالحکومت کے جنوب میں حزب اللہ کے مضبوط گڑھ پر راکٹ حملوں کے جواب میں حملہ کیا تھا۔

اسرائیلی فوج اور سیکورٹی سروسز کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ بدر حزب اللہ کا فلسطینی گروپ حماس کے ساتھ رابطہ کار تھا جس کے اکتوبر 2023 میں اسرائیل پر بڑے حملے نے غزہ کی پٹی میں جنگ کو جنم دیا ہے۔

اسرائیلی بیان میں کہا گیا ہے کہ بدر نے حماس کے دہشت گردوں کو ہدایت کی اور اسرائیلی شہریوں کے خلاف ایک اہم اور متوقع دہشت گرد حملے کی منصوبہ بندی اور پیش رفت میں ان کی مدد کی۔

’ہر کوئی‘ ہدف ہے

صدر جوزف عون نے لبنان کے اتحادیوں پر زور دیا کہ وہ ان کے ملک کے ”مکمل خودمختاری کے حق“ کی حمایت کریں۔

وزیر اعظم نواف سلام نے اس حملے کو 27 نومبر کی جنگ بندی کی ”واضح خلاف ورزی“ قرار دیا جس نے اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان ایک سال سے زیادہ عرصے سے جاری دشمنی کو بڑی حد تک ختم کر دیا۔

حزب اللہ کے قانون ساز ابراہیم موسوی نے کہا کہ حکومت کو ”لبنانیوں کی حفاظت کی ضمانت دینی چاہئے“، جبکہ ان کے ساتھی رکن پارلیمنٹ علی عمار نے متنبہ کیا کہ گروپ کے ”صبر کی اپنی حدیں ہیں“۔

کارڈف یونیورسٹی میں لیکچر دینے والے حزب اللہ کے لبنانی ماہر امل سعد نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ گروپ اپنے مغربی اتحادیوں کے ذریعے اسرائیلی کشیدگی سے نمٹنے کے لیے حکومت کا انتظار کر رہا ہے۔

تاہم انہوں نے متنبہ کیا کہ اگر حزب اللہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہی تو اس کی شناخت ختم ہونے کو خطرات لاحق ہیں۔

اسرائیل جنگ بندی کے آغاز کے بعد سے جنوبی اور مشرقی لبنان پر حملے جاری رکھے ہوئے ہے اور اس کے بقول حزب اللہ کے ان فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہا ہے جو معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔

انٹرنیشنل کرائسز گروپ تھنک ٹینک کے ہائیکو ویمن نے کہا کہ اسرائیل نے جنگ بندی معاہدے کے تحت ’اپنے دفاع کے حق کی وسیع تشریح‘ پر عمل کیا ہے۔

ویمین نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ نومبر کے بعد سے یہ معمول کی بات ہے لیکن اسرائیل کی فوجی کارروائی ’اب بیروت میں ہو رہی ہے۔

67 سالہ جمال بدرالدین، جو منگل کو ہونے والے حملے کے مقام سے صرف 30 میٹر (گز) کی دوری پر رہتے ہیں، نے کہا کہ ملک میں نوجوانوں سے لے کر بوڑھوں تک ہر کوئی ہدف بن رہا ہے۔

’کاری ضرب‘

اسرائیل نے گزشتہ ہفتے بیروت پر حملہ لبنان کی جانب سے راکٹوں کے دوسرے حملے کے جواب میں کیا تھا۔

لبنانی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے جمعے کے روز ہونے والے راکٹ حملے کے مقام کا سراغ لگا لیا ہے اور سیکورٹی فورسز کا کہنا ہے کہ انہوں نے متعدد مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔

لبنان کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی کوآرڈینیٹر جینین ہینس پلاسچرٹ نے کہا کہ آگے بڑھنے کا واحد قابل عمل راستہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد پر عمل درآمد ہے جس نے اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان 2006 کی جنگ کا خاتمہ کیا اور نومبر کی جنگ بندی کی بنیاد کے طور پر کام کیا۔

حزب اللہ کے اتحادی پارلیمنٹ کے اسپیکر نبیہ بیری نے منگل کے روز اسرائیل پر الزام عائد کیا کہ وہ اقوام متحدہ کی قرارداد ”مٹانے“ کی کوشش کر رہا ہے۔

حزب اللہ کے اتحادی پارلیمنٹ کے اسپیکر نبیہ بیری نے منگل کے روز اسرائیل پر الزام عائد کیا کہ وہ اقوام متحدہ کی قرارداد کو ”قتل“ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

جنگ بندی کے تحت اسرائیل کو جنوری کی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد 18 فروری تک لبنان سے اپنا انخلا مکمل کرنا تھا لیکن اس نے پانچ مقامات پر اپنی فوجیں تعینات کر رکھی ہیں جنہیں وہ ’اسٹریٹجک‘ سمجھتا ہے۔

اس معاہدے کے تحت حزب اللہ کو اسرائیلی سرحد سے تقریبا 30 کلومیٹر (20 میل) کے فاصلے پر دریائے لٹانی کے شمال میں اپنی افواج کو واپس بلانا ہوگا اور جنوب میں باقی ماندہ فوجی ڈھانچے کو ختم کرنا ہوگا۔

بیروت سے تعلق رکھنے والے حزب اللہ کے ایک ماہر اور اٹلانٹک کونسل کے سینیئر فیلو نکولس بلانفورڈ نے کہا کہ حزب اللہ کی مزاحمت مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ حزب اللہ فوجی طور پر جواب نہیں دے سکتی۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو اسرائیلی واپس آئیں گے اور مزید سخت حملے کریں گے۔

Comments

200 حروف