پاکستان نے افغان پناہ گزینوں کی ملک بدری کی مدت میں توسیع کر دی
- عید کی تعطیلات کی وجہ سے ڈیڈ لائن آئندہ ہفتے کے آغاز تک بڑھادی گئی
پاکستان نے افغان پناہ گزینوں کو اپنے ملک واپس جانے کے لیے دی گئی آخری تاریخ میں عید الفطر کی تعطیلات کے پیش نظر توسیع کر دی ہے۔ یہ بات ایک حکومتی عہدیدار نے منگل کو اے ایف پی کو بتائی۔
مارچ کے آغاز میں اسلام آباد نے کچھ خاص دستاویزات رکھنے والے افغان پناہ گزینوں کے لیے ماہ کے آخر تک ملک چھوڑنے کی آخری تاریخ کا اعلان کیا تھا جس کے تحت افغانوں کو ان کے وطن واپس بھیجنے کا عمل تیز کیا جا رہا تھا۔
عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ آخری تاریخ عید کی تعطیلات کے باعث اگلے ہفتے کے آغاز تک بڑھا دی گئی ہے۔
افغان سیٹیزن کارڈ (اے سی سی) رکھنے والے افغان جو پاکستان کے حکام کے ذریعے جاری کیے گئے ہیں اور جن کی تعداد اقوام متحدہ کے مطابق 8 لاکھ ہے اس آخری تاریخ کے بعد افغانستان میں بے دخلی کا سامنا کریں گے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین یو این ایچ سی آر کے پروف آف رجسٹریشن (پی او آر) کارڈ رکھنے والے 13 لاکھ سے زائد افغانوں کو بھی دارالحکومت اسلام آباد اور ہمسایہ شہر راولپنڈی سے باہر منتقل کیا جائے گا۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں تقریباً تین ملین افغان مقیم ہیں، جن میں سے زیادہ تر نے اپنے ملک میں دہائیوں سے جاری جنگ اور افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں واپسی کے بعد پاکستان میں پناہ لی۔
انسانی حقوق کی پاکستانی وکیل مونیزا کاکڑ نے اے ایف پی کو بتایا کہ بہت سے لوگ برسوں سے ملک میں رہ رہے ہیں اور واپس جانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ کچھ بھی واپس نہیں لیکر جاسکتے۔
طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد سے ہمسایہ ممالک کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں اور پاکستان نے کابل کے حکمرانوں پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ افغان سرزمین پر پناہ لینے والے عسکریت پسندوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں ناکام رہے ہیں۔
اسلام آباد کے ایک وفد نے مارچ میں کابل میں حکام سے ملاقات کی تھی، جس میں پاکستان نے خطے کے لیے افغانستان میں سلامتی کی اہمیت پر زور دیا تھا۔
طالبان حکومت بارہا افغانوں کی باعزت واپسی کا مطالبہ کرتی رہی ہے اور وزیر اعظم حسن اخوند نے افغانوں کی میزبانی کرنے والے ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ انہیں زبردستی ملک سے باہر نہ نکالیں۔
انہوں نے پاکستان کی اصل ڈیڈ لائن سے ایک روز قبل عید کے پیغام میں کہا تھا کہ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ جبری جلاوطنی کے بجائے، افغانوں کی مدد کی جائے اور انہیں سہولیات فراہم کی جائیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے پاکستان کی مہم کی مذمت کی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے افغانوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کیے جانے والے ’توہین آمیز ہتھکنڈوں‘ کی مذمت کی ہے کہ جہاں انہیں طالبان کی جانب سے ظلم و ستم انہیں شدید معاشی حالات کا سامنا ہے۔
طالبان حکام کی پابندیوں کے مطابق اگر افغان لڑکیاں اور نوجوان خواتین افغانستان واپس آ جاتی ہیں تو وہ تعلیم کے حقوق سے محروم ہو جائیں گی۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسلام آباد میں دیگر ممالک میں آباد کاری کے منتظر افغانوں کو ملک بدر کرنے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وہ غیر ملکی مشنوں سے بہت دور ہوں گے جنہوں نے ویزا اور سفری دستاویزات کا وعدہ کیا تھا اور ان کے لیے ان کی نقل مکانی کو مشنوں جیسے امریکہ کے ساتھ ہم آہنگ کرنے میں مشکلات کے بڑھ جانے کی وجہ سے جلاوطنی کا خطرہ ہے۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق 2023 کے اواخر میں اسلام آباد کی جانب سے غیر دستاویزی افغانوں کو پاکستان چھوڑنے کے الٹی میٹم کے بعد ستمبر 2023 سے 2024 کے اختتام تک 8 لاکھ سے زائد افغان وطن واپس لوٹے۔
Comments