برطانیہ کے وزیر تجارت نے کہا ہے کہ برطانیہ اب بھی پرامید ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے عائد کردہ محصولات کو جلد ہی واپس لے لیا جائے گا، اگر دونوں فریق نئی اقتصادی شراکت داری کے خاکے پر متفق ہو جائیں۔

برطانیہ نے ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت جیسے شعبوں میں واشنگٹن کے ساتھ زیادہ قریبی تعاون کی پیش کش کرکے ٹرمپ کے عالمی ٹیرف منصوبے سے بچنے کی کوشش کی تھی۔ تاہم وزیر تجارت جوناتھن رینالڈز کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ انفرادی استثنیٰ پر بات کرنے سے پہلے ہر ملک پر ٹیکس عائد کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ بدھ کو اعلان کیے جانے والے ان محصولات کو دونوں فریقوں کی شرائط پر اتفاق کے بعد ہٹا دیا جائے گا۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ میرا ماننا ہے کہ معاہدے کا فریم ورک یقینی طور پر موجود ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اس حوالے سے شرائط پر دستخط کر سکتے ہیں اور پھر ایک مخصوص ٹائم اسکیل پر تفصیلات کے بارے میں بات کر سکتے ہیں جو آگے چل کر امریکہ کے لیے اطمینان کا باعث ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکہ دیگر ممالک کے ساتھ معاہدے پر آنے کے لیے تیار ہے یا نہیں، یہ امریکہ کا فیصلہ ہے لیکن میرا ماننا ہے کہ ہم نے جو کام کیا ہے اس سے یہ ممکن ہوا ہے۔

وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے مذاکرات کو ”مثبت پیشرفت“ قرار دیا۔

یورپی یونین اور دیگر بڑی معیشتوں کے برعکس، برطانیہ نے امریکی محصولات پر جوابی کارروائی نہیں کی ہے، رینالڈز نے ایک بار پھر اشارہ دیا کہ لندن کشیدگی سے بچنے کی کوشش کرے گا۔ ان کا کہنا تھاکہ برطانوی کمپنیاں اس کے ”پر امن یا پرسکون نقطہ نظر“ کی حمایت کرتی ہیں۔

ہلکا انداز

ایک معاہدے کے حصے کے طور پر حکومت نے ٹیکنالوجی کمپنیوں پر اپنے ڈیجیٹل سروسز ٹیکس کے اثرات کو نرم کرنے پر غور کیا ہے کیونکہ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ امریکی کمپنیوں کے خلاف امتیازی سلوک ہے۔

برطانیہ نے اے آئی (مصنوعی ذہانت) کے ضوابط میں بھی ہلکا انداز اپنایا ہے، جو امریکہ کے ساتھ یورپی یونین کی نسبت زیادہ ہم آہنگ ہے، یہ پالیسی بڑی ٹیک کمپنیوں اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے ڈیزائن کی گئی ہے۔

برطانیہ دنیا بھر میں اے آئی مارکیٹ میں تیسری پوزیشن پر ہے جو صرف امریکہ اور چین سے پیچھے ہے۔ یہاں پر گوگل کی ملکیت ڈیپ مائنڈ اور بینولیئنٹ اے آئی جیسی کمپنیاں موجود ہیں۔

تاہم جوناتھن رینالڈز نے کہا کہ بات چیت میں کچھ ریڈ لائنز ہیں جن میں ”حساس علاقوں“ کو اجاگر کیا گیا جیسے کہ خوراک کے معیار پر بات نہیں کی جائے گی۔

رینالڈز کا کہنا تھا کہ برطانیہ کے پاس دیگر ممالک کے مقابلے میں استثنیٰ حاصل کرنے کا زیادہ امکان ہے اور وہ پرامید ہیں کہ معاہدے کے نتیجے میں ہفتوں یا مہینوں میں محصولات ختم ہو جائیں گے۔

ڈاؤننگ اسٹریٹ نے کہا کہ اسٹارمر اور ٹرمپ نے اتوار کے روز برطانیہ اور امریکہ کے درمیان اقتصادی خوشحالی کے معاہدے کے بارے میں ”نتیجہ خیز مذاکرات“ پر تبادلہ خیال کیا۔

اسکائی نیوز کی جانب سے یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وہ محسوس کرتے ہیں کہ امریکہ کی جانب سے ان کے ساتھ کھلواڑ کیا جاتا ہے اسٹارمر نے منگل کے روز کہا کہ دونوں ممالک بہت قریبی اتحادی ہیں اور رہیں گے۔

ٹرمپ کے اس منصوبے کی وجہ سے عالمی منڈیوں میں ہلچل مچ گئی ہے جس کی وجہ سے معاشی بحران کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ ٹرمپ نے کہا ہے کہ 1.2 ٹریلین ڈالر کے عالمی تجارتی خسارے کو کم کرنے کے لئے محصولات کی ضرورت ہے۔

رینالڈز کا کہنا تھا کہ یہ بتانا ممکن نہیں ہے کہ کوئی تبدیلی کب آئے گی لیکن انہوں نے خبردار کیا کہ اگر اس میں بہت زیادہ وقت لگا تو لندن کو جوابی محصولات پر غور کرنا پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ جتنی دیر تک ہمارے پاس اس کا کوئی ممکنہ حل نہیں ہوگا اتنا ہی ہمیں اپنے موقف پر غور کرنا پڑے گا۔

Comments

200 حروف