حماس نے غزہ میں جنگ بندی کی تجویز پر رضامندی ظاہر کر دی
- حماس سربراہ نے اسرائیلی قبضے کے ہوتے ہوئے غیر مسلح ہونے سے انکار کردیا
حماس کے سینئر رہنما خلیل الحیۃ نے ہفتے کے روز اعلان کیا کہ فلسطینی تنظیم نے مصر اور قطر کے پیش کردہ جنگ بندی کے معاہدے کو قبول کر لیا ہے، جو انہیں دو روز قبل موصول ہوا تھا۔
انہوں نے ایک نشریاتی خطاب میں کہا کہ ہم نے اس تجویز کو مثبت انداز میں لیا اور قبول کر لیا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اسرائیلی قبضہ اس میں رکاوٹ نہیں ڈالے گا۔
مصر نے قبل ازیں عندیہ دیا تھا کہ اسرائیل سے بھی اس معاہدے پر مثبت اشارے ملے ہیں، جس میں ایک عبوری مرحلہ شامل ہے۔ تجویز کے مطابق، حماس ہر ہفتے پانچ اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرے گی۔
اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر نے تصدیق کی کہ وہ مجوزہ معاہدے پر متعدد مشاورت کر چکے ہیں اور مکمل امریکی ہم آہنگی کے ساتھ ایک جوابی تجویز بھیج دی ہے۔ تاہم، انہوں نے فوری طور پر یہ واضح نہیں کیا کہ آیا اسرائیل اس معاہدے کو قبول کرے گا یا نہیں۔
پہلا مرحلہ 19 جنوری کو نافذ ہوا تھا، جس میں 15 ماہ سے جاری اسرائیلی حملوں کو روکنے، کچھ یرغمالیوں کی رہائی اور فلسطینی قیدیوں کی آزادی شامل تھی۔ دوسرے مرحلے میں باقی یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ سے اسرائیلی فوج کا انخلا متوقع ہے۔
حماس کا مؤقف ہے کہ معاہدے میں دوسرے مرحلے کے آغاز کی ضمانت ہونی چاہیے، جبکہ اسرائیل نے پہلے مرحلے کو 42 دن تک توسیع دینے کی تجویز دی ہے۔
اسرائیل اور امریکہ کا کہنا ہے کہ جنگ کے بعد غزہ میں حماس کو کوئی کردار نہیں دیا جانا چاہیے۔ دوسری جانب، حماس کے رہنما خلیل الحیۃ نے اسرائیلی اور امریکی مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ہتھیار سرخ لکیر ہیں، جب تک اسرائیلی قبضہ باقی ہے، ہم غیر مسلح نہیں ہوں گے۔
ہفتے کے روز اسرائیلی فضائی حملوں میں غزہ کے مختلف علاقوں میں کم از کم 20 فلسطینی شہید ہو گئے، جبکہ فوج نے رفح میں زمینی کارروائیوں کا آغاز کیا۔
18 مارچ سے اسرائیل نے بمباری اور زمینی حملے دوبارہ شروع کر دیے ہیں، جسے حماس پر دباؤ ڈالنے کی حکمت عملی قرار دیا جا رہا ہے۔
فلسطینی حکام کے مطابق، اسرائیلی حملوں میں اب تک 50,000 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔
اسرائیل نے 7 اکتوبر 2023 کے حملے کے بعد غزہ پر فوجی کارروائی شروع کی تھی، جس میں حماس کے زیر قیادت جنگجوؤں نے جنوبی اسرائیل میں حملہ کر کے 1,200 افراد کو ہلاک اور 251 کو یرغمال بنا لیا تھا۔
Comments