سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ اگر ملزم بلا جواز عدالت میں پیش نہ ہو، گواہوں کو متاثر یا خوفزدہ کرنے کی کوشش کرے یا شواہد میں رد و بدل کرے تو اس کی ضمانت منسوخ کی جا سکتی ہے۔
یہ ریمارکس اس وقت سامنے آئے جب عدالت عظمیٰ نے رباب نواز کی درخواست پر سماعت کی، جس میں لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا جس کے تحت ایک کنسرٹ میں فائرنگ کر کے اسد احمد کو قتل کرنے والے ملزم شہزاد حسن کی بعد از گرفتاری ضمانت منسوخ کی گئی تھی۔
جسٹس سید منصور علی شاہ کے تحریر کردہ فیصلے میں کہا گیا کہ عدالت عظمیٰ کے دائرہ اختیار میں ضمانت منسوخی کے معاملات پر مداخلت کے اصول واضح طور پر طے شدہ ہیں۔ ضمانت اگرچہ ایک سہولت ہے جو ملزم کو مقدمے کے دوران آزادی فراہم کرتی ہے، لیکن یہ غیر مشروط حق نہیں اور اس کا غلط استعمال ہونے پر اسے منسوخ کیا جا سکتا ہے۔
عدالت نے کہا کہ قانون اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ اگر ملزم ضمانت حاصل کرنے کے بعد ایسے اقدامات کرے جو عدالتی کارروائی میں مداخلت کا سبب بنیں، جیسے گواہوں کو دباؤ میں لینا، شواہد میں رد و بدل کرنا، ضمانت کے دوران دوبارہ جرم کرنا یا عدالتی شرائط کی خلاف ورزی کرنا، تو ضمانت منسوخ کی جا سکتی ہے۔
مزید برآں، اگر ملزم کسی معقول وجہ کے بغیر عدالت میں پیش ہونے میں ناکام رہے یا ایسے نئے حقائق سامنے آئیں جو ضمانت کے بنیادی جواز کو تبدیل کر دیں، تو عدالت ضمانت واپس لینے کا اختیار رکھتی ہے۔
عدالت نے واضح کیا کہ ضمانت کے احکامات کو منسوخ کرنے کے لیے دو بنیادی وجوہات ہوتی ہیں: (i) اگر فیصلہ بادی النظر میں قانونی اصولوں کے برخلاف ہو، یا (ii) اگر فیصلہ ضمانت کے کسی اصول کو نظر انداز کر کے دیا گیا ہو۔
تاہم، سپریم کورٹ نے مشاہدہ کیا کہ اس کیس میں ضمانت منسوخی کے لیے مطلوبہ شرائط پوری نہیں ہو رہیں، اس لیے درخواست مسترد کر دی گئی۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025
Comments