اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے جمعرات کے روز ہائی کورٹ کے قواعد طلب کر لیے تاکہ یہ طے کیا جا سکے کہ آیا چیف جسٹس کو کسی بینچ سے مقدمہ واپس لینے کا اختیار حاصل ہے یا نہیں۔

یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب مشال یوسفزئی کیس کو ان کے بینچ کی کاز لسٹ سے ہٹائے جانے پر توہین عدالت کی کارروائی شروع کی گئی۔ جسٹس اعجاز اسحاق نے سوال اٹھایا کہ آیا کسی مقدمے کو اعتراضات دور کیے بغیر بڑے بینچ کے سپرد کرنا قانونی طور پر درست ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد ایاز شوکت نے دلائل دینے کی اجازت طلب کی اور مؤقف اپنایا کہ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ آیا مشال یوسفزئی اب بھی پی ٹی آئی بانی کی قانونی نمائندہ ہیں یا نہیں۔ تاہم، جسٹس اعجاز اسحاق نے واضح کیا کہ عدالت کا معاملہ صرف کیس کی منتقلی کے قانونی پہلو سے متعلق ہے۔

جسٹس اعجاز اسحاق نے کہا کہ اگر وکیل عدالت میں کسی مؤکل کی نمائندگی کا دعویٰ کرے تو کیا ہر بار مؤکل کو بلا کر تصدیق کرنا ضروری ہے؟ انہوں نے مزید کہا کہ مقدمات کو یکجا کرنے یا بڑے بینچ کی تشکیل کے لیے عدالتی طریقہ کار موجود ہے، جس کے تحت کیس کے جج کو تحریری درخواست دینا ضروری ہوتا ہے۔

عدالت نے کیس کی سماعت عید کی تعطیلات کے بعد تک ملتوی کر دی۔

Comments

200 حروف