پاکستان میں سولر گولڈ رش کا آغاز ہوتے ہی یہ واضح تھا کہ حکومت کی طرف سے اس پر پالیسی ردعمل آئے گا۔ اعداد و شمار ہی اس کی وضاحت کے لیے کافی تھے۔ گزشتہ 12 سے 18 مہینوں میں نیٹ میٹرڈ روف ٹاپ سولر انتہائی تیزی سے پھیلا، جس سے گرڈ پرائسنگ میں بگاڑ پیدا ہوا۔ حکومت کے مطابق، اس نظام کی وجہ سے گرڈ صارفین کو سالانہ تقریباً 150 ارب روپے کا اضافی بوجھ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ کوئی معمولی رقم نہیں۔ نیٹ میٹرڈ سولر کی تنصیب 2021 میں 321 میگاواٹ سے بڑھ کر دسمبر 2024 تک 4,241 میگاواٹ تک جا پہنچی—اور یہ محض چھ ماہ میں دگنی ہو گئی۔ اس کے نتیجے میں بجلی کے نظام پر پڑنے والا اثر اتنا زیادہ تھا کہ اسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں تھا۔

اب نئی نیٹ میٹرنگ پالیسی آ گئی ہے۔ اس کا بنیادی نکتہ کیا ہے؟ اس میں موجودہ اور نئے نیٹ میٹرنگ صارفین کے درمیان واضح فرق کیا گیا ہے۔ جو صارفین پہلے سے نیٹ میٹرنگ کے تحت رجسٹرڈ ہیں، وہ بدستور 27 روپے فی یونٹ بائی بیک ریٹ پر بجلی فروخت کر سکیں گے، مگر انہیں ممکنہ طور پر گراس میٹرنگ پر منتقل کر دیا جائے گا، جس میں فروخت اور خرید شدہ بجلی کو الگ الگ بل کیا جائے گا (اس حوالے سے مزید وضاحت کا انتظار ہے)۔ دوسری طرف، نئے نیٹ میٹرنگ صارفین سے صرف 10 روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی خریدی جائے گی، اور یہ بھی گراس میٹرنگ کے تحت ہوگی، جس سے سرمایہ وصولی کا دورانیہ طویل ہو جائے گا۔

 ۔
۔

27 روپے فی یونٹ بائی بیک ریٹ دراصل نیشنل ایوریج پاور پرچیز پرائس (این اے پی پی پی) پر مبنی ہے، جبکہ نیا 10 روپے فی یونٹ ریٹ گرڈ کی بجلی پیداوار کی مارجنل لاگت کے قریب ہے۔ اس پالیسی کی منطق یہ ہے کہ سولر نیٹ میٹرنگ صارفین گرڈ کو بنیادی ذریعہ نہیں بلکہ بیک اپ کے طور پر استعمال کرتے ہیں، اس لیے انہیں اس سہولت کی زیادہ قیمت ادا کرنی چاہیے۔

 ۔
۔

ابھی تک، موجودہ نیٹ میٹرنگ اسٹرکچر کے تحت صارفین اپنی سرمایہ کاری محض تین سال سے بھی کم عرصے میں پوری کر لیتے تھے، جبکہ عالمی سطح پر یہ اوسطاً پانچ سال میں پوری ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ اس پالیسی میں تبدیلی کے بعد بھی، بیشتر صارفین پانچ سال کے اندر اپنی سرمایہ کاری واپس نکال سکیں گے، جو عالمی معیار کے مطابق ایک معقول مدت ہے۔

اعداد و شمار سب کچھ واضح کر دیتے ہیں۔ موجودہ نیٹ میٹرنگ اسٹرکچر میں، سولر صارفین اپنی سرمایہ کاری 1.95 سال میں پوری کر لیتے ہیں (اگر 10 کلوواٹ کا سسٹم 100 فیصد خود استعمال کیا جائے)۔ نئی پالیسی کے تحت، موجودہ صارفین کو معمولی اثر پڑے گا، لیکن نئے صارفین کو نمایاں فرق محسوس ہوگا۔ اب، 10 کلوواٹ کے سولر سسٹم کے ساتھ 100 فیصد خود استعمال کی صورت میں سرمایہ وصولی کا دورانیہ تین سال سے زیادہ ہو جائے گا۔

 ۔
۔

یہ تبدیلی اچانک نہیں آئی۔ ریگولیٹر نیٹ میٹرنگ کے مراعاتی ڈھانچے کو مارکیٹ کی حقیقتوں کے مطابق ڈھال رہا ہے، تاکہ سبسڈی کے بوجھ کو کم کیا جا سکے۔ تاہم، لمبے پے بیک ٹائم کے باوجود، شمسی توانائی کا حل اب بھی اقتصادی طور پر فائدہ مند ہے۔ ہوسکتا ہے کہ نئی پالیسی کے تحت شمسی توانائی کی تنصیب کی رفتار سست ہو جائے، لیکن سولر ٹیکنالوجی کا رجحان ختم نہیں ہوگا۔ جو لوگ اپنی بجلی کی زیادہ سے زیادہ خود کھپت کو بہتر بنا سکتے ہیں، ان کے لیے یہ موقع اب بھی اتنا ہی فائدہ مند ہے جتنا پہلے تھا۔

کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ اقدام روف ٹاپ سولر کی تنصیب کو مکمل طور پر ختم کر دے گا۔ یہ ایک مبالغہ آرائی ہے۔ یہ رفتار کو کم ضرور کر سکتا ہے، لیکن منتقلی کا عمل نہیں رکے گا۔ یہاں تک کہ بدترین ممکنہ صورتِ حال، یعنی کم سیلف کنزمپشن (خود استعمال)، میں بھی بچت کافی حد تک باقی رہے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ نئی ٹیکنالوجیز کے لیے دی جانے والی مراعات مستقل نہیں ہوتیں۔ مثال کے طور پر، ویتنام نے اپنی فیڈ اِن ٹیرف کو مرحلہ وار کم کیا، اور جیسے جیسے مارکیٹ ترقی کرتی گئی، ریٹ تقریباً نصف کر دیے گئے۔ آسٹریلیا نے بھی ڈائنامک ٹیرف اسٹرکچرز اپنائے جو طلب کے ساتھ بہتر طور پر مطابقت رکھتے ہیں۔ پاکستان بھی پالیسی ارتقاء کے ایک عالمی رجحان کی پیروی کر رہا ہے، تاکہ جب روف ٹاپ سولر بڑے پیمانے پر اپنایا جائے تو قیمتوں میں برابری یقینی بنائی جا سکے۔

 ۔
۔

اصل بحث انصاف کی ہے۔ پاکستان میں 3 کروڑ 20 لاکھ گھریلو صارفین ایسے ہیں جو مکمل طور پر گرڈ پر انحصار کرتے ہیں، جبکہ نیٹ میٹرنگ سے مستفید ہونے والے صارفین کی تعداد محض 2 لاکھ 80 ہزار ہے، اور ان میں اکثریت زیادہ آمدنی رکھنے والے گھرانوں کی ہے۔ انہیں پرکشش بائی بیک ریٹ فراہم کرنا، جبکہ باقی عوام بڑھتے ہوئے گرڈ نرخوں کا بوجھ برداشت کریں، کبھی بھی پائیدار حل نہیں تھا۔ صرف 2024 میں روف ٹاپ سولر کی درآمدات 2 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی تھیں، اور یہ منتقلی مسلسل تیز ہو رہی تھی۔ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ وہ صارفین جو سب سے زیادہ بل دیتے تھے اور جو پہلے بجلی کے نرخوں کو سبسڈی فراہم کر رہے تھے، وہ اب گرڈ چھوڑ رہے ہیں۔ نتیجتاً، باقی ماندہ گرڈ صارفین پر بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔

 ۔
۔

ایک اور اہم تشویش تکنیکی صلاحیت کی ہے۔ موجودہ قوانین کے تحت، صارفین اپنی منظور شدہ لوڈ کی 1.5 گنا تک تنصیب کر سکتے ہیں۔ اگر تمام صارفین زیادہ سے زیادہ تنصیب کر لیں تو مجموعی روف ٹاپ لوڈ ٹرانسفارمر کی گنجائش سے تجاوز کر سکتا ہے، جو نظام کو اوورلوڈ کر سکتا ہے۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز) کی رپورٹس کے مطابق، درمیانے وولٹیج والے فیڈرز پہلے ہی ریورس پاور فلو کے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ وہ چیلنجز ہیں جن کے لیے طویل مدتی منصوبہ بندی درکار ہے، اور روف ٹاپ سولر کی بے قابو توسیع ان مسائل کو مزید پیچیدہ بنا سکتی ہے۔

 ۔
۔

یہ بحث قابلِ تجدید توانائی کے خلاف نہیں ہے۔ پاکستان کو سولر توانائی کی ضرورت ہے۔ لیکن اسے ایک متوازن اور منصفانہ قیمتوں کا ڈھانچہ بھی درکار ہے، جو چند مخصوص افراد کو غیر متناسب فائدہ نہ پہنچائے۔ نیٹ میٹرنگ کو مارکیٹ کے پختہ ہونے کے ساتھ ساتھ تبدیل ہونا ہی تھا۔ اس پالیسی میں تبدیلی سولر توانائی کے خلاف حملہ نہیں بلکہ مارکیٹ کی حقیقتوں کے مطابق ایڈجسٹمنٹ ہے۔

(پے بیک منظرنامے کے تجزیہ کے لیے فرض کردہ نکات: دن/رات کی بجلی کھپت کا تناسب 40:60، مخصوص پیداوار 4.7 کلو واٹ آور فی کلو واٹ پیک (کے ڈبلیو ایچ / کے ڈبلیو پی) عالمی بینک کی گلوبل پی وی پوٹینشل اسٹڈی کے مطابق، پیک آور فیکٹر 25 فیصد، موجودہ بائی بیک ریٹ 27 روپے فی یونٹ، مجوزہ بائی بیک ریٹ 10 روپے فی یونٹ، نئی پالیسی کے تحت گراس میٹرنگ، تمام حسابات ٹیکس اور سرچارجز کے بغیر، ٹیکس اور سرچارجز شامل کرنے سے پے بیک پیریڈ میں بہتری آتی ہے، پیداوار میں کمی سے پے بیک پیریڈ بڑھ جاتا ہے)۔

Comments

200 حروف