غزہ کے شمالی قصبے بیت لاھیا پر اسرائیلی فضائی حملے میں تین مقامی صحافیوں سمیت کم از کم 9 فلسطینی شہید ہوگئے ہیں۔

محکمہ صحت کے حکام نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ہفتے کے روز اس حملے میں متعدد افراد شدید زخمی ہوئے جب کہ گاڑی کے اندر اور باہر بھی شہادتیں ہوئیں۔

عینی شاہدین اور ساتھی صحافیوں کا کہنا ہے کہ کار میں سوار افراد بیت لاھیا میں الخیر فاؤنڈیشن نامی خیراتی ادارے کے مشن پر تھے اور جب ان پر حملہ ہوا تو ان کے ساتھ صحافی اور فوٹوگرافر بھی موجود تھے۔

فلسطینی ذرائع ابلاغ کے مطابق شہید ہونے والوں میں کم از کم تین مقامی صحافی بھی شامل ہیں۔

اسرائیلی فوج نے ابتدائی طور پر دعویٰ کیا تھا کہ اس نے ڈرون چلانے والے دو ”دہشت گردوں“ کو نشانہ بنایا ہے جو اس کی افواج اور ڈرون سازوسامان جمع کرنے والے متعدد افراد کے لئے خطرہ ہیں۔

ایک اور بیان میں اس نے چھ افراد کا نام لیا جن کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ فلسطینی گروہ حماس اور اسلامی جہاد کے ارکان تھے۔

اس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کچھ جنگجوؤں نے ’صحافیوں کی آڑ میں‘ کام کیا تھا۔

یہ واقعہ 19 جنوری کے جنگ بندی معاہدے کی کمزوری کی نشاندہی کرتا ہے جس نے غزہ کی پٹی میں بڑے پیمانے پر لڑائی روک دی تھی۔

فلسطینی صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کے باوجود اسرائیلی فائرنگ سے درجنوں افراد شہید ہو چکے ہیں۔

غزہ حکومت کے میڈیا آفس کی سربراہ سلامہ معروف نے فوج کے الزامات کی تردید کی ہے۔

“یہ ٹیم عام شہریوں پر مشتمل تھی اور ایک خیراتی ادارے کے ذریعہ اسپانسر کردہ مشن پر ایک پناہ گاہ کے قریب ایک علاقے میں کام کرتی تھی۔ وہ کسی ممنوعہ علاقے میں نہیں تھے اور نہ ہی قابض فوج کو کسی قسم کا کوئی خطرہ تھا۔

جنگ بندی کا تعطل

بعد ازاں ہفتے کے روز غزہ کے طبی عملے نے بتایا کہ وسطی غزہ کی پٹی کے قصبے جوہر الدک میں ایک اور اسرائیلی فضائی حملے میں دو فلسطینی ہلاک ہو گئے۔

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ اس واقعے سے لاعلم ہے۔

حماس نے ایک بیان میں اسرائیل پر جنگ بندی معاہدے سے انحراف کی کوشش کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ 19 جنوری سے اب تک شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 150 ہے۔

اس نے ثالثوں پر زور دیا کہ وہ اسرائیل کو مرحلہ وار جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد کے ساتھ آگے بڑھنے پر مجبور کریں اور اس تعطل کا ذمہ دار اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کو قرار دیں۔

غزہ کے طبی عملے کی جانب سے رپورٹ کیے گئے بعض واقعات پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ اس کی افواج نے ’دہشت گردوں‘ کی جانب سے اس کی افواج کے قریب آنے یا اس زمین پر بم نصب کرنے کے خطرات کو ناکام بنانے کے لیے مداخلت کی ہے جہاں فورسز کام کرتی ہیں۔

جنگ بندی کا پہلا مرحلہ 2 مارچ کو ختم ہونے کے بعد سے اسرائیل نے مذاکرات کے دوسرے مرحلے کو کھولنے سے انکار کر دیا ہے، جس کے تحت اسے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے مستقل خاتمے پر بات چیت کی ضرورت ہوگی، جو حماس کا بنیادی مطالبہ ہے۔

یہ واقعات ایسے وقت میں پیش آئے ہیں جب حماس کے جلاوطن غزہ کے سربراہ خلیل الحیا اسرائیل کے ساتھ تنازعات کو حل کرنے کے لیے مزید جنگ بندی مذاکرات کے لیے قاہرہ کا دورہ کر رہے ہیں۔

جمعے کے روز حماس نے کہا تھا کہ اگر اسرائیل غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے مستقل خاتمے کے لیے جنگ بندی مذاکرات کا اگلا مرحلہ شروع کرتا ہے تو وہ امریکہ اور اسرائیل کی دوہری شہریت رکھنے والے شخص کو رہا کرنے پر رضامند ہو گا۔

حماس کا کہنا ہے کہ اس نے دوسرے مرحلے میں مذاکرات کے لیے ثالثوں کی جانب سے تجویز موصول ہونے کے بعد نیو جرسی سے تعلق رکھنے والے اسرائیلی فوج کے 21 سالہ فوجی ایڈن الیگزینڈر کو رہا کرنے کی پیش کش کی تھی۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ جنگ بندی کے پہلے مرحلے میں توسیع کرنا چاہتا ہے، اس تجویز کو امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف کی حمایت حاصل ہے۔ حماس کا کہنا ہے کہ وہ دوسرے مرحلے کے تحت یرغمالیوں کی رہائی دوبارہ شروع کرے گی۔

غزہ کے محکمہ صحت کے حکام کے مطابق 7 اکتوبر 2023 سے اب تک غزہ پر اسرائیل کے حملے میں 48 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جس کے نتیجے میں زیادہ تر علاقے ملبے کے دھیر میں تبدیل ہو گئے ہیں اور نسل کشی اور جنگی جرائم کے الزامات عائد کیے گئے ہیں جن کی اسرائیل تردید کرتا ہے۔

Comments

200 حروف