خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) نے حکومت کی فروری 2024 میں اعلان کردہ فارماسیوٹیکل سیکٹر کی ڈی ریگولیشن پالیسی کی توثیق کردی اور کہا کہ غیر ضروری ادویات کی ڈی ریگولیشن کے ساتھ یہ شعبہ ایک بڑے تبدیلی کے عمل سے گزررہا ہے۔

ایس آئی ایف سی کی ایک حالیہ سوشل میڈیا پوسٹ کے مطابق اس اقدام سے “مارکیٹ میں مسابقت اور ان ادویات کی منصفانہ قیمتوں کا تعین ممکن ہوا جو نیشنل ایسینشل میڈیسن لسٹ (این ای ایم ایل) میں شامل نہیں ہیں۔

ایس آئی ایف سی کے بیان میں کہا گیا کہ یہ اقدام نہ صرف دواؤں کی مستحکم فراہمی کو یقینی بناتا ہے بلکہ فارماسیوٹیکل صنعت کی ترقی اور توسیع کو بھی فروغ دیتا ہے۔واضح رہے کہ قواعد و ضوابط کو آسان بنانے، کاروباری ماحول کو بہتر کرنے اور مینوفیکچررز و برآمد کنندگان کو سہولت فراہم کرکے، ایس آئی ایف سی پاکستان کو فارماسیوٹیکل سرمایہ کاری اور جدت کا مرکز بنانے میں مدد کررہا ہے۔

کونسل کے مطابق ڈی ریگولیشن سے فارماسیوٹیکل سیکٹر میں تحقیق و ترقی (آر اینڈ ڈی) میں سرمایہ کاری بڑھی ہے جس سے نئی اور بہتر ادویات کی تیاری ممکن ہوئی ہے۔

ایس آئی ایف سی کے مطابق عالمی فارماسیوٹیکل کمپنیاں پاکستانی مارکیٹ میں توسیع کررہی ہیں جبکہ ڈی ریگولیشن نے ایف ڈی اے، ایم ایچ آر اے، ڈبلیو ایچ او اور پی آئی سی ایس کی منظوری کے تقاضوں پر عملدرآمد میں بھی مدد فراہم کی ہے۔

مزید برآں اس اقدام کی بدولت رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں فارماسیوٹیکل برآمدات میں 52 فیصد اضافہ ہوا، جو دیگر شعبوں کے مقابلے میں نمایاں رہا۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ ڈی ریگولیشن نے مسابقت کو مضبوط بنایا، جس سے ادویات کی بہتر دستیابی اور قیمتوں میں استحکام“ یقینی ہوا جبکہ سخت ریگولیٹری نفاذ کے ذریعے جعلی اور اسمگل شدہ ادویات میں بھی کمی آئی۔

ایس آئی ایف سی کے مطابق اس اقدام سے زندگی بچانے والی اور ضروری ادویات کی دستیابی میں اضافہ ہوا، جبکہ 40 فیصد فارما مارکیٹ کو حکومتی ضابطے میں رکھ کر ادویات کی قیمتوں میں استحکام یقینی بنایا گیا۔ اس کے علاوہ، پاکستان کا فارماسیوٹیکل سیکٹر بین الاقوامی معیارات سے ہم آہنگ ہوا۔

انہوں نے کہا کہ سرمایہ کار دوست پالیسیوں کے باعث فارماسیوٹیکل سیکٹر کی ترقی تیز ہورہی ہے جس سے یہ شعبہ مسلسل جدت، عالمی مسابقت اور بہتر طبی سہولیات کی فراہمی کے لیے تیار ہے۔

دریں اثنا آئی کیو وی آئی اے کی تیسری سہ ماہی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پی پی ایم اے) کے چیئرمین توقیر الحق نے کہا کہ تیسری سہ ماہی کے ایم اے ٹی نتائج کے مطابق، مجموعی طور پر 21.7 فیصد ترقی ریکارڈ کی گئی، جس میں نئی ادویات کی لانچنگ، لائن ایکسٹینشن اور مشکلات کا شکار مصنوعات کی دوبارہ دستیابی شامل ہے۔

اگر ہم صرف قیمتوں میں اضافے کے عنصر کو دیکھیں، اور نئی دواؤں کی لانچنگ، لائن ایکسٹینشن، اور مصنوعات کی دوبارہ دستیابی کے اثرات کو شامل نہ کریں، تو یہ شرح 15.62 فیصد بنتی ہے۔ گزشتہ چند سال میں شدید کرنسی گراوٹ اور بڑھتی ہوئی کاروباری لاگت کو مدنظر رکھتے ہوئے، یہ اضافہ مناسب ہے۔“

پی پی ایم اے کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ ایسوسی ایشن نے ہمیشہ صنعت میں ذمہ دارانہ اور منطقی قیمتوں میں اضافے پر زور دیا ہے۔ ڈی ریگولیشن کے بعد “صرف وہی مصنوعات کی قیمتیں ایڈجسٹ کی جا رہی ہیں جو غیر موزوں تھیں تاکہ ان کی دستیابی یقینی بنائی جا سکے اور یہ عمل تقریباً مکمل ہو چکا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اب قیمتیں مستحکم ہو جائیں گی کیونکہ مارکیٹ کی قوتیں اور مسابقت غیر معمولی اضافے کو محدود کر دیں گی، اور یہ قیمتوں کی ایڈجسٹمنٹ کا عمل بین الاقوامی اصولوں کے مطابق ہے۔

توقیر الحق کے مطابق ڈی ریگولیشن کے فوائد نظرآرہے ہیں کیونکہ دواؤں کی دستیابی اور رسائی میں نمایاں بہتری آئی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اہم اور زندگی بچانے والی مصنوعات جو پہلے دستیاب نہیں تھیں وہ ملک بھر کی فارمیسیوں میں دستیاب ہیں۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ ڈی ریگولیشن کے باعث ملک کی دوا سازی برآمدات میں نمایاں اضافہ ہوا۔ جولائی تا دسمبر 2024 کے دوران، صنعت نے گزشتہ سال کے مقابلے میں 52 فیصد ترقی ریکارڈ کی، جبکہ رواں مالی سال 2024-25 میں برآمدات ایک ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے۔

ڈی ریگولیشن کے باعث جعلی اور اسمگل شدہ ادویات کی موجودگی کم ہو گئی ہے، کیونکہ مارکیٹ میں رجسٹرڈ مصنوعات کے ذریعے طلب پوری کی جا رہی ہے۔

چیئرمین پی پی ایم اے نے کہا کہ حقیقت پسندانہ اور قابل عمل قیمتوں نے پاکستانی مارکیٹ میں نئی اور جدید مصنوعات کو متعارف کرانے اور آغاز میں بھی اہم کردار ادا کیا، جس کے نتیجے میں طبی ماہرین کے لیے جدید علاج کے اختیارات دستیاب ہوئے تاکہ وہ مریضوں کا بہتر علاج کر سکیں۔

Comments

200 حروف