عالمی بینک کے ایک عہدیدار نے متنبہ کیا ہے کہ اگر پانی کی تقسیم اور نکاسی کے نظام میں بہتری کیلئے اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان میں پانی کے ایک ایک قطرے پر تنازع کھڑا ہوسکتا ہے۔
یہ انتباہ عالمی بینک گروپ کے سینئر واٹر اسپیشلسٹ بشارت احمد سعید نے پاکستان میں آبی تحفظ سے متعلق پی آئی ڈی ای کے زیر اہتمام ایک سیمینار کے دوران دیا۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ رفتار سے زراعت میں زیر زمین پانی کے استعمال کے باعث پاکستان 2030 تک زیر زمین پانی کی قلت اور 2037 تک سطحی پانی کی کمی کا شکار ہو سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے پاس ابھی پانی کی بڑی مقدار موجود ہے، یہی وجہ ہے کہ بے تحاشا استعمال کے باوجود صورتحال اتنی سنگین نہیں ہوئی جتنی ہونی چاہیے تھی۔
بشارت احمد سعید نے خبردار کیا کہ اگر اس صورتحال پر قابو نہ پایا گیا تو اضافی پانی نکالنے سے یا تو صنعتوں یا شہری علاقوں پر منفی اثر پڑے گا، جس کے نتیجے میں پانی کے حصول پر تنازعات جنم لیں گے۔ انہوں نے مزید وضاحت کی کہ 2030 تک اگر کوئی زمیندار یا صنعت اضافی پانی نکالنے کی کوشش کرے گا تو وہ دراصل دوسرے شہریوں کے حصے کا پانی استعمال کر رہا ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم ایسی صورتحال کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں ہر بوند پانی کے لیے جھگڑا ہوگا۔ اگرچہ ابھی تک ہم اس مقام تک نہیں پہنچے، لیکن اگر حالات نہ بدلے تو فسادات ہونے کا خدشہ ہے۔ ہم سندھ میں اس کے آثار پہلے ہی دیکھ رہے ہیں۔
سیمینار کے شرکاء نے پانی سے متعلق مسائل پر تشویش کا اظہار کیا جن میں مزید آبی ذخائر (چاہے چھوٹے ہی کیوں نہ ہوں) کی ضرورت، پانی کے غلط استعمال، اور واٹر مارکیٹ کے فقدان جیسے معاملات شامل تھے۔
بشارت احمد سعید کے مطابق پانی کی سالانہ اوسط دستیابی میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آئی تاہم مون سون کے وقت اور سرمائی بارش کی نوعیت میں تغیر بڑھ گیا ہے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ درجہ حرارت میں اضافے کے باعث پانی کی طلب میں 58 فیصد تک اضافہ ہو سکتا ہے، جو سب سے بڑا اثر ڈالے گا۔ قدرتی طور پر پانی کے ضیاع میں بھی اضافہ متوقع ہے، خاص طور پر زیریں سندھ طاس میں۔ انہوں نے زور دیا کہ آئندہ تین دہائیوں میں غیر زرعی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے موجودہ آبپاشی کے 10 فیصد پانی (12 بی سی ایم) کو دوبارہ مختص کرنا ہوگا۔
مزید برآں، ملک کو آئندہ برسوں میں شدید سیلاب اور خشک سالی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جبکہ سمندری سطح میں اضافے اور ساحلی طوفان سندھ اور بلوچستان کے لیے مزید چیلنجز پیدا کریں گے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025
Comments