یہ سننے میں دیوانگی لگتی ہے، لیکن ابتدا میں مارکیٹوں کو واقعی یہی لگا کہ ٹرمپ عالمی تجارتی اور ٹیرف ڈھانچے کو تہس نہس کرنے کے بارے میں محض دھمکیاں دے رہے ہیں، چاہے اسی قسم کی اور بھی زیادہ سخت بیان بازی نے انہیں دوبارہ وائٹ ہاؤس تک پہنچایا ہو۔

لیکن اب ایسا نہیں ہے۔

یہ مفروضہ کہ ان کا جارحانہ تجارتی مؤقف محض ایک مذاکراتی حربہ تھا، صرف چین اور دیگر تجارتی شراکت داروں کو زیادہ سازگار معاہدوں پر مجبور کرنے کا ایک ذریعہ تھا، اب قابلِ عمل نہیں رہا۔ پچھلے چند ہفتوں، خاص طور پر پچھلے چند دنوں کے واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ سب محض دکھاوا نہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔

وائٹ ہاؤس کا ٹیرف بڑھانے کا فیصلہ، تحفظ پسندی کو دوگنا کرنے اور اسٹاک مارکیٹ کو کامیابی کے ایک پیمانے کے طور پر ترک کرنے نے سرمایہ کاروں کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ اس انتظامیہ کی معاشی حکمت عملی کے بارے میں اپنی تمام تر توقعات کو از سرِ نو جانچیں۔ نتیجہ؟ خطرے سے دوری اور محفوظ اثاثوں کی جانب ایک تیز رفتار جھکاؤ۔

ٹرمپ کی پہلی مدتِ صدارت اسٹاک مارکیٹ پر بے پناہ توجہ کے گرد گھومتی رہی۔ ایس اینڈ پی 500 کی ہر نئی بلند ترین سطح کو ان کی معاشی برتری کے ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا۔ مارکیٹ میں گراوٹ آنے پر سنجیدہ تسلی بخش بیانات، سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بڑھانے کے لیے ٹویٹس، اور یہاں تک کہ فیڈرل ریزرو پر دباؤ ڈال کر مالیاتی پالیسی کو نرم کرنے کی کوششیں کی گئیں۔

یہ دور اب ختم ہو چکا ہے۔

موجودہ انتظامیہ اب مارکیٹ کے استحکام کو ترجیح نہیں دے رہی۔ اس کے برعکس، وائٹ ہاؤس وسیع تر نظریاتی مقاصد کے حصول کے لیے مارکیٹ میں افراتفری کو برداشت کرنے، بلکہ اسے دعوت دینے کے لیے بھی تیار نظر آتا ہے۔ ٹیرف اب مذاکراتی ہتھیار نہیں رہے؛ بلکہ وہ خود ایک مقصد بن چکے ہیں۔ اور بازاروں کے لیے، یہ سب کچھ بدل کر رکھ دیتا ہے۔

اس کا سب سے فوری نتیجہ غیر یقینی صورتِ حال کی شدت میں اضافہ ہے۔ ہر تیزی کا رجحان فروخت میں بدل جاتا ہے، ہر امید افزا لمحہ تجارتی جنگ کے کسی نئے محاذ کے ذریعے کچل دیا جاتا ہے۔ سرمایہ کاروں کو صرف ٹیرف کی ہی فکر نہیں بلکہ انہیں عالمی معاشی نظام کی بدلتی ہوئی صورتِ حال بھی بے حد پریشان کر رہی ہے۔

”عبوری مدت“ کا تصور—یعنی بازاروں کو بس کچھ وقت درکار ہے تاکہ وہ ایڈجسٹ ہو سکیں—کوئی تسلی نہیں دے رہا، جب کہ یہ عبوری مرحلہ خود ہی غیر معین اور بے قابو ہے۔ کاروبار کے لیے مستقبل کی منصوبہ بندی کرنا ناممکن ہو چکا ہے، سرمایہ کاری رک چکی ہے، اور عالمی سپلائی چین حقیقی وقت میں از سرِ نو ترتیب دی جا رہی ہے۔ صرف غیر یقینی کیفیت ہی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو جڑ سے ہلا دینے کے لیے کافی ثابت ہو رہی ہے۔

مارکیٹ کے جذبات کا سب سے نمایاں اشارہ صرف خطرات رکھنے والے اثاثوں کی فروخت ہی نہیں بلکہ محفوظ پناہ گاہوں کی جانب دوڑ بھی ہے۔ سونا، جو مالی اور سیاسی عدم استحکام کے خلاف حتمی دفاع سمجھا جاتا ہے، بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ سوئس فرانک، جو تاریخی طور پر اقتصادی بحران کے دوران محفوظ پناہ گاہ رہا ہے، مضبوط ہو رہا ہے۔

دوسری جانب، ڈیفنسو اسٹاک—جیسا کہ ہیلتھ کیئر اور کنزیومر اسٹیپلز (ضروری اشیاء کی صنعتیں)—بہتر کارکردگی دکھا رہے ہیں کیونکہ سرمایہ کار طوفان سے بچنے کی پوزیشن سنبھال رہے ہیں۔ یہ بازاروں کی جانب سے بڑھتے ہوئے جغرافیائی سیاسی خدشات اور اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ کشیدگی کے خاتمے میں وقت لگے گا۔

یہ تبدیلی عارضی نہیں ہے۔ مارکیٹ کی ترجیحات میں ہائی بیٹا (زیادہ اتار چڑھاؤ والے) اور ترقی پذیر اسٹاکس جیسے ٹیکنالوجی اور صارفین کی لگژری اشیاء سے ہٹ کر دفاعی حکمت عملی کی طرف منتقلی ظاہر کرتی ہے کہ سرمایہ کار طویل مدت کے لیے غیر یقینی صورتِ حال کے لیے تیار ہو رہے ہیں۔ یہ صرف ٹیرف کا معاملہ نہیں، بلکہ یہ عالمی اقتصادی تعلقات کی ایک وسیع تر تنظیم نو ہے، جو سرمایہ کاری کی حکمت عملیوں کو بنیادی طور پر بدل رہی ہے۔

روایتی ٹرمپ ٹریڈ—جو ٹیکسوں میں کمی، ضابطہ سازی میں نرمی، اور اقتصادی محرکات پر مبنی تھی—اب محتاط رویے میں تبدیل ہو چکی ہے، جہاں سرمایہ کے تحفظ کو قیاس آرائی پر ترجیح دی جا رہی ہے۔

اس معاملے کو مزید پیچیدہ بنانے والی چیز فیڈرل ریزرو کی مشکل پوزیشن ہے۔ درآمدی لاگت میں اضافے اور سپلائی چین میں خلل کی وجہ سے مہنگائی کے خدشات بڑھ رہے ہیں، جس کی وجہ سے فیڈرل ریزرو کے لیے شرحِ سود میں جارحانہ کمی کرنا ممکن نہیں رہا تاکہ بازاروں میں پیدا ہونے والی افراتفری کو متوازن کیا جا سکے۔ اس کا مطلب ہے کہ سرمایہ کار مالیاتی پالیسی سے وہ سہارا حاصل نہیں کر سکتے جو ماضی میں انہیں ملتا رہا ہے۔

اب وہ ایک ایسے ماحول میں کام کر رہے ہیں جہاں مالیاتی اور مالی پالیسی دونوں استحکام کے بجائے غیر یقینی کے ذرائع بن چکے ہیں۔

بازاروں کا پیغام واضح ہے: پرانا طریقۂ کار اب لاگو نہیں ہوتا، کم از کم کچھ عرصے کے لیے۔ ٹرمپ کی معاشی حکمت عملی مارکیٹ دوست سے مارکیٹ کو درہم برہم کرنے والی بن چکی ہے، اور سرمایہ کار اسی کے مطابق ایڈجسٹ ہو رہے ہیں۔ جو لوگ کبھی اس بات پر شرط لگاتے تھے کہ ٹرمپ اسٹاک مارکیٹ کی کارکردگی کو اپنی ترجیح بنائیں گے، وہ اب دیکھ رہے ہیں کہ ان کی ترجیحات بدل چکی ہیں۔ تجارتی جنگ کوئی ضمنی تماشا نہیں، بلکہ مرکزی ایونٹ ہے۔

اور جب تک دھول بیٹھ نہیں جاتی، خطرات والے اثاثے دباؤ میں رہیں گے، جب کہ محفوظ پناہ گاہیں چمکتی رہیں گی۔

سرمایہ کاروں کے لیے سبق بالکل واضح ہے—اتار چڑھاؤ کے لیے تیار رہیں، دفاعی پوزیشن لیں، اور اس امید کو چھوڑ دیں کہ یہ انتظامیہ بازاروں کو بچانے کے لیے مداخلت کرے گی۔ ٹرمپ کے اسٹاک مارکیٹ کو اسکور کارڈ کے طور پر استعمال کرنے کا دور ختم ہو چکا ہے۔ آگے جو کچھ آ رہا ہے، وہ غیر دریافت شدہ علاقہ ہے، اور بازاروں کو سب سے زیادہ خوف کس چیز سے لگتا ہے؟—نامعلوم مستقبل سے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025

Comments

200 حروف