سپریم کورٹ کے سات رکنی آئینی بینچ نے پیر کے روز سویلین افراد کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف دائر انٹرا کورٹ اپیلوں کی سماعت کی۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے مؤقف اپنایا کہ متنازع فیصلے نے خود فوجی عدالتوں کو تسلیم کیا ہے، لہٰذا انہیں آئین کے آرٹیکل 175 کے دائرہ کار سے خارج سمجھا جانا چاہیے۔
انہوں نے دلیل دی کہ شریف فریدی کیس کے فیصلے میں عدالتوں کی علیحدگی کا ذکر انتظامی امور کے حوالے سے تھا، جو عدالتی اختیارات استعمال کر رہی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 203 کے تحت ہر ہائی کورٹ کو اپنے ماتحت عدالتوں کی نگرانی اور کنٹرول حاصل ہے، اور جو فورم قانون شہادت اور ضابطہ فوجداری کے اصولوں کے تحت فیصلے کرے، اسے عدالت قرار نہ دینا مناسب نہیں۔
لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل حامد خان نے مؤقف اپنایا کہ راولپنڈی ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کیس میں سپریم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ فوجی عدالتیں صرف محدود مقاصد اور مخصوص افراد کے لیے ہو سکتی ہیں، اور ان کے قیام کے لیے آئینی ترمیم ضروری ہوگی۔
انہوں نے مزید کہا کہ فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیل کا حق ہونا چاہیے، جو اس معاملے میں پورا نہیں کیا گیا۔ انہوں نے آرٹیکل 245 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ سویلینز کے ٹرائل اور فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے بنیاد فراہم نہیں کرتا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ کیا کسی بھی شخص کو، جس کا جرم آرمی ایکٹ 1952 کے تحت آتا ہو، فوجی عدالت میں پیش کیا جا سکتا ہے؟ اس پر حامد خان نے براہ راست جواب دینے کے بجائے بھارتی سپریم کورٹ کا حوالہ دیا، جس میں کہا گیا ہے کہ سویلینز کا کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے دریافت کیا کہ آیا فوجی عدالتیں آئین کے آرٹیکل 175 (1) کے دائرہ کار میں آتی ہیں؟ اس پر حامد خان نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ جامع ہے، اور اس میں تبدیلی کی ضرورت نہیں۔
جسٹس سید حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ شریف فریدی کیس کے فیصلے میں فوجی عدالتوں کا کوئی حوالہ دیا گیا ہے؟ اس پر حامد خان نے کہا کہ فیصلے میں واضح کیا گیا تھا کہ عدلیہ کی انتظامیہ سے علیحدگی ضروری ہے اور یہ محض ایک اختیاری امر نہیں۔
انہوں نے کہا کہ آئینی مقدمات کے فیصلے دور رس اثرات رکھتے ہیں اور کسی بھی غیر آئینی فیصلے کے نتائج مستقبل میں بھی سامنے آئیں گے، جیسے کہ ڈوسو کیس کا اثر آج بھی موجود ہے۔
سپریم کورٹ نے مزید سماعت آج (منگل) تک ملتوی کر دی۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025
Comments