جنوبی کوریا کے معزول صدر یُون سوک یول کو ہفتے کے روز حراست سے رہا کر دیا گیا کیونکہ مقامی ایک عدالت نے طریقہ کار کی بنیاد پر ان کی گرفتاری کو کالعدم قرار دے دیا۔

معطل صدر، جنہیں 3 دسمبر کو سویلین حکمرانی ختم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے بغاوت کے الزام میں حراست میں لیا گیا تھا، مسکراتے ہوئے حراستی مرکز سے باہر چلے گئے اور پرجوش حامیوں کے ایک چھوٹے سے ہجوم کے سامنے سر جھکا دیا۔

یون نے اپنے وکلاء کے ذریعے جاری ایک بیان میں کہا کہ میں اس ملک کے لوگوں کا شکریہ ادا کرنے کے لیے اپنا سر جھکاتا ہوں۔

مقامی عدالت نے ایک روز قبل تکنیکی اور قانونی بنیادوں پر ان کے وارنٹ گرفتاری منسوخ کر دیے تھے اور اس فیصلے کو یون کے خلاف تحقیقات کرنے والے پراسیکیوٹرز نے ’غیر منصفانہ‘ قرار دیا تھا۔

استغاثہ کی جانب سے عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کے حق سے دستبرداری کے بعد یون کو رہا کر دیا گیا، جو خاص طور پر مجرمانہ الزامات پر ان کی حراست کی تکنیکی تفصیلات سے متعلق تھا۔

یون کو ایک علیحدہ آئینی عدالت کے فیصلے کا بھی سامنا ہے کہ آیا ان کے مواخذے کو برقرار رکھا جائے اور انہیں باضابطہ طور پر عہدے سے ہٹا دیا جائے، ججوں کا فیصلہ کسی بھی دن متوقع ہے۔

استغاثہ کا کہنا تھا کہ ’آئینی عدالت کے فیصلے اور متعلقہ معاملات کو دیکھتے ہوئے پراسیکیوٹر جنرل نے ٹیم کو ہدایت کی ہے کہ وہ یون کی حراست سے رہائی کے خلاف اپیل کرنے کے بجائے ٹرائل کورٹ کے سامنے فعال طور پر اپنے دلائل پیش کرے۔

جنوبی کوریا میں یون کو ہٹانے کی صورت میں 60 دن کے اندر نئے صدارتی انتخابات کا انعقاد ضروری ہے۔

ان کے خلاف فوجداری مقدمہ جاری رہے گا چاہے ان سے باضابطہ طور پر عہدہ وپاس لے لیا جائے۔

ایک وکیل اور سیاسی کالم نگار یو جنگ ہون نے اے ایف پی کو بتایا، “چونکہ یون کی رہائی ان کی حراست کے طریقہ کار سے متعلق ہے، اس لیے اس کا ان کے مواخذے پر آئینی عدالت کی بحث پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

انہوں نے مزید کہا، ’تاہم، یون کی رہائی کی وجہ سے ان کے حامیوں اور مظاہرین کے درمیان سماجی الجھن اور تنازعات میں اضافہ ہوا ہے، عدالت کو فوری طور پر کارروائی کرنے کی زیادہ ضرورت محسوس ہوسکتی ہے۔

فوری طور پر ہٹانا

یون کے وکلاء، جنہوں نے گزشتہ ماہ ان کی گرفتاری منسوخ کرنے کی درخواست دائر کی تھی، نے ان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ استغاثہ نے ان پر فرد جرم عائد کرنے کے لیے طویل انتظار کیا تھا۔

ان کی قانونی ٹیم نے ایک بیان میں کہا کہ صدر کی رہائی قانون کی حکمرانی کی بحالی کی علامت ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے نامہ نگاروں نے دیکھا کہ یون گاڑیوں کے ایک قافلے میں سوار ہو کر سیدھے صدارتی رہائش گاہ کی طرف روانہ ہوئے اور صدارتی احاطے کے باہر کھڑے سینکڑوں حامیوں کا خیرمقدم کرنے کے لیے اپنی گاڑی سے اترے۔

حزب اختلاف نے اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا اور ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک ترجمان نے کہا کہ یون ایک جنرل کی طرح کام کر رہے ہیں جس نے ابھی ایک جنگ جیتی ہے۔ یہ کسی ایسے شخص کا شرمناک رویہ ہے جو بغاوت کی قیادت کرنے کے الزام سے انکار کرتا ہے۔

انہوں نے آئینی عدالت کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اب آگے بڑھنے کا واحد راستہ (یون کو) فوری طور پر عہدے سے ہٹانا ہے۔

یون ایک سابق پراسیکیوٹر ہیں، جنہوں نے گزشتہ سال دسمبر میں جنوبی کوریا میں سویلین حکمرانی کو عارضی طور پر معطل کر کے اور پارلیمان میں فوج بھیج کر جمہوری کوریا کو افراتفری میں ڈال دیا تھا۔

ان پر مارشل لاء کے اعلان پر بغاوت کا الزام عائد کیا گیا ہے، جسے قانون سازوں نے ان کا مواخذہ کرنے سے چند گھنٹوں قبل ہی مسترد کر دیا تھا۔

سیئول میں ان کی سرکاری رہائش گاہ پر ان کی سکیورٹی ٹیم اور تفتیش کاروں کے درمیان کشیدگی کے باعث 64 سالہ شخص نے دو ہفتوں تک گرفتاری کی مخالفت کی۔ آخر کار اسے ١٥ جنوری کو حراست میں لے لیا گیا۔

مواخذے کی زیادہ تر سماعت اس بات پر مرکوز رہی ہے کہ آیا یون نے مارشل لاء کا اعلان کرکے آئین کی خلاف ورزی کی ہے، جو قومی ہنگامی حالات یا جنگ کے اوقات کے لیے مخصوص ہے۔

حزب اختلاف نے ان پر مناسب جواز کے بغیر غیر معمولی اقدام کرنے کا الزام لگایا ہے۔

یون کے وکلا کا کہنا ہے کہ انہوں نے ملک کو حزب اختلاف کی جانب سے ’قانون ساز آمریت‘ کے خطرات سے آگاہ کرنے کے لیے مارشل لاء کا اعلان کیا ہے۔

Comments

200 حروف