سپریم کورٹ میں بدھ کے روز سات رکنی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق مقدمے کی سماعت کی۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں کی سماعت کی۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے کچھ ارکان کی نمائندگی کرنے والے وکیل عابد شاہد زبیری نے اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکلز 4، 9 اور 10 اے کی موجودگی میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی گنجائش نہیں۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے مقدمات انسداد دہشت گردی عدالتوں میں چلائے جاتے ہیں، لیکن 9 مئی کے مظاہرین کے کیسز فوجی عدالتوں کو بھیج دیے گئے۔ جسٹس سید حسن اظہر رضوی نے کہا کہ وہ ابھی تک دہشت گردوں کے ٹرائل کی کوئی مثال نہیں دیکھ سکے۔

عابد شاہد زبیری نے دلیل دی کہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو قانون سازی کے ذریعے اپیل کا حق دیا گیا، لیکن پاکستانی شہریوں کو یہ حق حاصل نہیں۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ فوجی تحویل میں موجود 103 ملزمان کو اپیل کا حق دیا جائے گا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے کہا کہ کلبھوشن یادیو کو اپیل کا حق عالمی عدالت انصاف کے فیصلے اور ویانا کنونشن کے تحت دیا گیا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ وزارت دفاع کے وکیل کے مطابق پاکستان ملٹری لاء میں ملزمان کے لیے کئی بنیادی حقوق موجود ہیں، لیکن اگر کچھ ملزمان کو وہ حقوق نہیں ملے تو یہ الگ معاملہ ہے۔

عابد شاہد زبیری نے مؤقف اپنایا کہ عدالتوں کی آزادی آئین کی بنیاد ہے، جبکہ فوجی عدالتوں کے جج صاحبان فوجی نظم و ضبط کے تحت کام کرتے ہیں، اس لیے وہ آزادانہ فیصلہ نہیں دے سکتے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ فوجی عدالتیں عدلیہ نہیں بلکہ صرف فوجی اہلکاروں کے نظم و ضبط سے متعلق مقدمات سننے کے لیے قائم کی گئی ہیں۔

سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت جمعرات 6 مارچ تک ملتوی کردی، جہاں وکیل حامد خان اپنے دلائل کا آغاز کریں گے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025

Comments

200 حروف