یہ مارتا ہے۔ دکھ دیتا ہے۔ یہ افسردہ کرتا ہے لیکن یہ آپ کو حیران نہیں کرتا۔ یہ آپ کو چونکاتا نہیں لیکن یہ برا احساس زہریلا ہو جاتا ہے۔ یہ جذبات ایک عام پاکستانی کی نمائندگی کرتے ہیں کہ آپ کی کرکٹ ٹیم لڑے بغیر میچ ہار جاتی ہے۔

اور وہ بھی بھارت کے خلاف۔ حالات بہت زیادہ بھارت کے حق میں تھے۔ ماہرین پہلے ہی یکطرفہ کھیل کی پیش گوئی کر چکے تھے۔ جب ایسا ہوتا ہے، تو اسے جاننے کے باوجود، پھر بھی یہ صورتحال آپ کو چاروں شانے چت کر دیتی ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ صرف ایک کھیل کی ہار نہیں ہے بلکہ یہ ایک امید کی ہار ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں خوشی منانے کے لئے بہت کم مواقع ہیں، ایسے میں کرکٹ بہت زیادہ توانائی، بہت زیادہ جشن اور بہت زیادہ اتحاد کا جذبہ لے کر آتا ہے۔

پاکستان میں کرکٹ ایک ایسا کھیل ہے جسے ہر کوئی جوش و خروش سے دیکھتا اورسنتا ہے۔ یہ ایک ایسا کھیل ہے جو ہر طبقے، جنس اور پیشے سے بالاتر ہے۔ یہ ایک ایسا کھیل ہے جو مردہ دلوں میں نئی جان ڈال دیتا ہے۔

میڈیا کو دیکھیں ۔ سوشل میڈیا پر نظر دوڑائیں۔ ہر کوئی ایک ماہر بن بیٹھا ہے۔ ہر کوئی ٹک ٹاک کر رہا ہے۔ ہر کوئی اس بحث میں شریک ہے۔ کارپوریٹ بورڈ روم کے ڈائریکٹر اسٹریٹجک میٹنگز کے دوران اسکور اپ ڈیٹ کے لئے خفیہ طور پر اپنے فون نظر دوڑاتے ہیں۔ سڑک کنارے نیچے چھوٹا کریانہ دکان والا میچ دیکھنے والوں کے لئے پرانے زمانے کا 14 انچ ٹی وی کا انتظام کرتا ہے۔ گلی محلوں میں خوانچہ فروش مسلسل میچ پر رواں تبصرہ کرتا ہے۔

یہ ایک خاص میچ تھا. پاکستان کئی دہائیوں بعد آئی سی سی ٹورنامنٹ کی میزبانی کر رہا ہے۔ اسٹیڈیم کی تزئین و آرائش کی گئی ہے۔ بھارت کے سوا تمام ٹاپ ٹیمیں پاکستان آئی ہوئی ہیں۔

گھر کے میدان، مقامی تماشائیوں کا ہجوم۔ اچھا موسم، اچھی پچیں۔ تمام فوائد ملکی ٹیم کے حق میں۔ پھر بھی پاکستان کی ٹیم نے مسلسل خراب کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ پاکستان پر، بطور ایک خطرناک ٹیم ، جیسے آپ کبھی نہیں جان پاتے کہ وہ کب ناقبل شکست بن جائے، لیبل بھی اب پرانا ہوگیا ہے۔

وہ اب متوقع طور پر اور مستقل طور پر برے ہیں. اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اب بھی کچھ اچھے میچ کھیل سکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ صرف جدید کرکٹ کے لئے نہیں بنائے گئے ہیں۔

پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) پاکستان کے دیگر اداروں کی طرح اقربا پروری اور من پسند لوگوں کو نوازنے کی کہانی ہے۔ اس طرح کی خراب کارکردگی پر عام رد عمل کوچ کی تبدیلی، سلیکٹرز کو تبدیل کرنا، ٹیم کو تبدیل کرنا ہے۔ یہ ایک عام روایتی غیر منطقی جواب ہے۔ اصل مسئلہ ان میں سے بہت سی شرمناک پرفارمنس کی بنیادی وجہ کو حل کرنے میں ہے:

1۔ تین ایس خرابی - اسٹرکچر(ڈھانچہ) ، اسٹریٹجی (حکمت عملی) اور سسٹم (نظام) کسی تنظیم کی قسمت کا تعین کرتے ہیں۔ سب سے زیادہ زیر بحث مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کس طرح تشکیل دیا گیا ہے اور چل رہا ہے۔ صرف اس لئے کہ کچھ بھی نہیں کیا گیا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس پر بات نہ کی جائے۔ درحقیقت، اس پر اور زیادہ کھل کر بحث کی جانی چاہئے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کابینہ میں وزارتی عہدے کے بعد سب سے اہم سیاسی فوائد و مرعات والا عہدہ ہے۔

چیئرمین پی سی بی کا تقرر قانون کے مطابق ملک کے وزیر اعظم کا استحقاق ہے۔ یہاں سے طاقت کا کھیل شروع ہوتا ہے۔ برسراقتدار پارٹیوں میں ان کے بہت سے وفادار اس عہدے کے لئے مقابلہ کرتے ہیں۔ جیسے جیسے پارٹی بدلتی ہے، چیئرمین بھی بدلتا ہے اور باقی سب کچھ بدل جاتا ہے۔

گزشتہ ڈھائی سال میں 4 چیئرمین تبدیل ہو چکے ہیں۔ ہر چیئرمین ایک پیچیدہ قانونی اور سیاسی جنگ لڑتا ہے۔ ہر آنے والا چیئرمین اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ اس کے ”وفادار“ ان کے پس منظر سے قطع نظر تمام دفاتر میں تعینات ہوں۔

سلیکٹرز، منیجرز، کوچز سبھی میوزیکل چیئرز پر بیٹھ کر اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ اس سے ٹیم کے اندر بھی سیاست ہوتی ہے۔ میرٹ اور پیشہ ورانہ مہارت سب سے پہلا نقصان ہے۔ موجودہ انتخاب بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔

چیمپیئنز ٹرافی کے لیے ٹیم میں دیر سے شامل کیے جانے پر میڈیا پلیٹ فارم سے شدید تنقید کی جا رہی ہے کہ وہ حکومت کی ’سفارشی‘ ہیں۔ ہر کسی نے ڈومیسٹک اسٹرکچر میں معیار کی کمی کے بارے میں بات کی ہے۔ لیکن کوئی کچھ نہیں کرتا۔

جب تک قانون نہیں بدلا جاتا تب تک کوئی کچھ نہیں کرے گا۔ پی سی بی کو سیاسی سرپرستی سے پاک کرنے کے لیے اسمبلی میں بل منظور کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت میں ایسا کرنے کی ہمت نہیں ہے۔

چونکہ سیاست دان صرف اپنی مدت کے بارے میں سوچتے ہیں، اس لیے ان کی دلچسپی صرف یہ ہے کہ وہ پہلے سے ہی خستہ حال ڈومیسٹک کرکٹ کے ڈھانچے کو اپنے ساتھیوں سے بھریں، جو بدلے میں اپنے ساتھیوں کو اپنے ماتحت لاتے ہیں۔ یہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ٹیلنٹ، گرومنگ اور میرٹ کو ہر سطح پر کچل دیا جائے۔

سابق اسپنر سعید اجمل نے میڈیا پر کھل کر شیئر کیا کہ کس طرح کھلاڑیوں کے درمیان وکٹوں کا فیصلہ کیا جاتا ہے اور فیورٹ کی جعلی اوسط بنانے کے لیے رنز کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ اوپر سے جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ نیچے تک جاتا ہے۔

2۔ دماغی کھیل- کرکٹ، زیادہ سے زیادہ ترین، ایک سوچنے والا کھیل ہے. دماغی طاقت جسمانی قوت سے زیادہ موثر ہوتی ہے۔ صرف بڑی ہٹنگ، بے پناہ ٹیلنٹ، راکٹ کی سی تیز بولنگ کافی نہیں ہے۔

یہ ایک ایسا کھیل ہے جس کے لئے حکمت عملی کی ضرورت ہے. یہ وہ کھیل ہے جس میں جدت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسا کھیل ہے جس میں ذہنوں کو پڑھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسا کھیل ہے جس میں صورتحال کو پڑھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسا کھیل ہے جس میں پچ ، موسم ، دوسری ٹیم کے ہر رکن کو پڑھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

یہ وہ جگہ ہے جہاں پاکستان مقابلے میں شامل ہی نہیں ہے۔ وہ دن گئے جب کھلاڑی تعلیم یافتہ اور کرکٹ کے کھیل میں تجربہ رکھنے والے پس منظر سے آتے تھے۔ وہ دن بھی گئے جب کھلاڑیوں کو کاؤنٹی کرکٹ کھیلنے کا موقع ملتا تھا۔

زیادہ تر کھلاڑی بہت سادہ اور غیر تجربہ کار پس منظر سے آتے ہیں۔ یقیناً وہ انتہائی باصلاحیت ہیں، لیکن صرف صلاحیت ہی تجربہ نہ ہونے اور پختہ ذہنیت کے فروغ کی کمی کو پورا نہیں کر سکتی۔

بہت کم عمری میں سپر اسٹار بننا، بغیر کسی تربیت کے، اور یہ نہ جاننا کہ جدید کرکٹرز کے لیے کیا ضروریات ہیں، یہ نوجوان کھلاڑی ایک وی شکل کی کیریئر کرور کی طرح ہوتے ہیں۔ وہ آتے ہیں، کامیابیوں کی بدولت چمکتے ہیں اور پھر زوال کا شکار ہوکرمنظر سے غائب ہوجاتے ہیں۔

3۔ کھیل کی آگہی، فٹنس، مہارتیں- شہرت کو برقرار رکھنے کے لئے ایک باشعور اور حقیقت پسند ذہن رکھنے والے سربراہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے کھلاڑیوں میں احساس اور پختگی، نظم و ضبط، فٹنس اور سخت جاں انتھک مشقوں کا بڑا فقدان ہے۔ کرکٹ میں فٹنس کے معیار سے متعلق کوئی نرمی یا رعایت نہیں برتی جاسکتی۔

چاہے وہ میدان میں تیز رفتاری ہو یا بڑے ہٹس یا مسلسل بولنگ اسپیل، یہ ایک چیز پر منحصر ہے اور وہ ہے بہترین فٹنس۔ فٹنس نظم و ضبط والی غذا اور جم میں پیشہ ورانہ طور پر منظم اضافی وقت کا مجموعہ ہے۔

نیوزی لینڈ کے گلین فلپس اپنی چھکے مارنے کی شہرت کے ساتھ اس بات کی صرف ایک مثال ہیں کہ کس طرح سخت محنت اور نظم و ضبط ناقابل یقین سپر مین جیسی بیٹنگ اور فیلڈنگ کی کارکردگی کی بنیاد ہے۔

انہوں نے جم میں اپنی سخت محنت کا ذکر کرتے ہوئے ایک مثال دی کہ وہ کس طرح ایک دن میں 800 بینچ پریس کرتے ہیں۔ جی ہاں، 800 فی دن. ہمارے باصلاحیت ستاروں میں سے کسی میں بھی خود کو فٹ بنانے کے لئے سخت شیڈول رکھنے کا شعور یا خواہش نہیں ہے۔

یہ کہانیاں کہ وہ اپنی خوراک اور ورزش کے بارے میں کتنی کم پرواہ کرتے ہیں، ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ ان کی ترجیحات کیا ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 4 اوورز کے بعد ان کی رفتار کم ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے شاٹس باؤنڈریز کو نہیں پار کرتے۔

یہی وجہ ہے کہ ان کی فیلڈ میں پیش بندی کرنے اور ڈائیو کرنے کی صلاحیت اتنی سست ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صائم ایوب، اپنی تمام صلاحیتوں کے باوجود، ہمیشہ انجری کا شکار ہو سکتے ہیں۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ انہیں مسلسل مہارت کی تعمیر، نیٹ سے باہر کی مشقوں اور جِم میں مسلسل پسینہ بہانے کی ضرورت ہے۔

بُمراہ اور اسٹارک کی جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے مہارت، مسلسل درست اور تیز بولنگ ان کی محنت، فٹنس اور حریف بیٹسمینوں کی خوبیوں اور خامیوں کا مسلسل مطالعہ کرنے کا نتیجہ ہے۔

کرکٹ کی نئی دنیا میں مقابلہ کرنے کے لئے صرف تین پہلوؤں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پی سی بی کو سیاسی چنگل سے آزاد کرانے کے لیے قانون میں ترمیم کی جائے ۔ سپر اسٹار ہونے سے قطع نظر ہر کرکٹر کے لئے کمیونیکیشن، تربیت اور عمومی علم سے متعلق ایک سال تک لازمی تعلیم دی جائے۔ ایک فٹنس روٹین جو انتخاب کے لئے ایک پیشگی شرط ہے اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ کیا یہ واقعی اتنا آسان ہے؟ بالکل نہیں۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025

Comments

200 حروف