سپریم کورٹ نے استفسار کیا کہ 9 مئی کو فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والے افراد کی شناخت کیسے کی گئی؟

جمعرات کے روز جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سات رکنی آئینی بینچ نے سویلین افراد کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر انٹرا کورٹ اپیلوں کی سماعت کی۔

سول سوسائٹی کے ممبران کی نمائندگی کرتے ہوئے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ان کے مؤقف کے مطابق کسی فرد کو ملزم اس وقت سمجھا جاتا ہے جب اس پر فرد جرم عائد ہو، جبکہ سویلین افراد کی تحویل فوجی حکام کے سپرد کرنا ضابطہ فوجداری کی دفعہ 549 اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعات 29، 30 اور 32 کی خلاف ورزی ہے۔

فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اگر 103 افراد کو فوجی حکام کے حوالے کرنے سے پہلے مجسٹریٹ کے سامنے پیش نہیں کیا گیا تو یہ منتقلی غیر قانونی ہے اور فوجی عدالتوں کا دائرہ اختیار بھی غیر قانونی ہوگا۔

سماعت کے دوران فیصل صدیقی نے ایک ایف آئی آر پڑھی، جو راولپنڈی میں جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو) پر حملہ کرنے والے چند ملزمان کے خلاف درج کی گئی تھی۔

جسٹس سید حسن اظہر رضوی نے پوچھا کہ ایف آئی آر میں درج افراد کی شناخت کیسے کی گئی؟ انہوں نے مزید کہا کہ کچھ مظاہرین جی ایچ کیو میں داخل نہیں ہوئے بلکہ باہر احتجاج کر رہے تھے۔ فیصل صدیقی نے بتایا کہ جن افراد کی تحویل فوجی حکام کے حوالے کی گئی، ان کی شناخت سی سی ٹی وی فوٹیج کے ذریعے کی گئی۔

جسٹس امین الدین خان نے دریافت کیا کہ کتنے مظاہرین کو فوجی حکام کے حوالے کیا گیا؟ کیونکہ اس دن (9 مئی) بہت سے لوگ احتجاج کر رہے تھے۔ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ ان کے پاس کوئی حتمی تعداد نہیں ہے۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ کئی فوجداری مقدمات میں ملزمان کے خلاف فرد جرم سالوں تک عائد نہیں ہو پاتی کیونکہ وہ عدالت میں پیش نہیں ہوتے، یا ان کے وکیل غیر حاضر ہوتے ہیں، اور بعض اوقات ملزم مفرور ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فرد جرم عائد نہ ہونے کی وجہ سے عدالت مقدمے کی کارروائی آگے نہیں بڑھا سکتی۔

فیصل صدیقی نے مؤقف اختیار کیا کہ اگر کسی شخص کو صرف ایف آئی آر کی بنیاد پر ملزم قرار دیا جائے تو پھر تحویل کی منتقلی کے لیے مجسٹریٹ کو درخواست دینے کی ضرورت نہیں، بلکہ پولیس کو ہی اختیار ہونا چاہیے کہ وہ صرف ایف آئی آر کی بنیاد پر کسی بھی سویلین کو فوج کے حوالے کر سکے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اعلیٰ عدالتوں کے کئی فیصلے موجود ہیں جن میں سویلین افراد کو براہ راست فوج کے ذریعے گرفتار کیا گیا، تاہم عدالتوں نے بعد میں ان گرفتاریوں کو غیر قانونی قرار دیا۔ انہوں نے لاہور ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کا حوالہ دیا، جس میں معروف شاعر احمد فراز کی فوجی حکام کے ہاتھوں گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا۔ انہیں ایک نظم لکھنے پر گرفتار کیا گیا تھا، جسے مارشل لاء کے خلاف عوام کو بھڑکانے کے مترادف سمجھا گیا تھا، لیکن لاہور ہائی کورٹ نے یہ مؤقف مسترد کر کے ان کی رہائی کا حکم دیا تھا۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ احمد فراز کے خلاف شکایت معروف نغمہ نگار اور شاعر سیف الدین سیف نے درج کرائی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ احمد فراز نے اپنی درخواست میں مؤقف اپنایا تھا کہ وہ مذکورہ نظم کے مصنف نہیں ہیں۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے وکیل سے پوچھا کہ آپ آرمی ایکٹ کی قانونی حیثیت کو چیلنج نہیں کر رہے بلکہ عدالت سے صرف 103 ملزمان کی تحویل کی منتقلی کو غیر قانونی قرار دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر عدالت کل کو پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کی دفعہ 2(1)(d) کو کالعدم قرار دے دے تو آپ کے تمام دلائل بے اثر ہو جائیں گے۔ انہوں نے وکیل کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے دلائل کو اپیلوں کے اگلے مراحل کے لیے محفوظ رکھیں۔

فیصل صدیقی نے بینچ کو بتایا کہ انہوں نے عدالت کو مختلف آپشنز دیے ہیں، اب یہ عدالت پر منحصر ہے کہ وہ کون سا راستہ اختیار کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں ان میں سے کسی بھی حل پر متفق ہوں، بشرطیکہ وہ ملزمان کے مفاد میں ہو۔

جسٹس مظہر نے وکیل سے کہا کہ ان کے دلائل ملزمان کے مقدمے کو نقصان نہیں پہنچائیں گے کیونکہ یہ معاملہ زیر التوا نہیں ہے۔

عدالت نے کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کر دی، جہاں فیصل صدیقی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025

Comments

200 حروف