کیا نیٹ میٹرنگ پر 18 فیصد ٹیکس شمسی توانائی کی ترقی کو سست کردے گا؟
وفاقی ٹیکس محتسب (ایف ٹی او) نے پاکستان میں سولر نیٹ میٹرنگ صارفین پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کی ہدایت دی ہے ۔
بزنس ریکارڈر کی رپورٹ کے مطابق یہ فیصلہ ایک بڑے مالی خسارے کے انکشاف کے بعد کیا گیا جو تقریباً 9.8 ارب روپے کے لگ بھگ ہے۔
فیصلے کے تحت سیلز ٹیکس بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز) کی جانب سے فراہم کردہ بجلی کی مکمل مقدار پر لاگو ہوگا، بغیر اس بات کا لحاظ کیے کہ نیٹ میٹرنگ کے ذریعے بجلی فروخت کی گئی ہے کہ نہیں ۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس کا مطلب ہے کہ صارفین پر بجلی کی مکمل حاصل کردہ مقدار پر ٹیکس عائد کیا جائے گا، نہ کہ صرف اس نیٹ مقدار پر جو وہ خود پیدا کرکے گرڈ میں واپس بھیجتے ہیں۔
اسی طرح انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن 235 کے تحت انکم ٹیکس وِدہولڈنگ بھی نیٹ میٹرڈ ویلیو کے بجائے بجلی کی مجموعی فراہم کردہ مقدار پر شمار کی جائے گی۔
اسی طرح انکم ٹیکس کی واپسی سیکشن 235 کے تحت بھی بجلی کی مجموعی مقدار پر کی جائے گی، نہ کہ نیٹ میٹرڈ مقدار پر۔
توانائی شعبے کے ماہر بشمول سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ (ایس پی ڈی آئی) کے ریسرچ فیلو ڈاکٹر خالد ولید نے بزنس ریکارڈر سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قواعد کے مطابق سیلز ٹیکس مجموعی توانائی کی فراہمی یا مجموعی کھپت پر عائد کیا جانا چاہیے۔ اس کا مطلب ہے کہ نیٹ میٹرنگ صارفین کو زیادہ ٹیکس ادا کرنا پڑے گا جس سے نیٹ میٹرنگ کی حوصلہ شکنی ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ حکومت ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہے، کیونکہ وہ گرڈ کی طلب میں اضافے کے لیے نیٹ میٹرنگ کی حوصلہ شکنی کرنا چاہتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ نیٹ میٹرنگ ایک مؤثر ذریعہ ثابت ہوسکتی ہے۔ اس کا بہتر استعمال یہ ہو سکتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ رہائشی صارفین کو نیٹ میٹرنگ کی طرف لایا جائے، جبکہ صنعتی صارفین کو قومی گرڈ کی طلب کا خلا پُر کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔
انسائٹ سیکیورٹیز میں توانائی شعبے کے تحقیقی تجزیہ کار اسد علی نے اس فیصلے کو صارفین کے لیے ”منفی“ قرار دیا، کیونکہ اس سے بجلی کے اخراجات میں اضافہ متوقع ہے، تاہم انہوں نے نوٹ کیا کہ یہ ڈسکوز پر اثرانداز نہیں ہوگا کیونکہ یہ سیلز ٹیکس کے دائرے میں آتا ہے۔
تجزیہ کار نے نشاندہی کی کہ اگرچہ حکومت شمسی توانائی کو فروغ کے لئے پرعزم ہے لیکن ملک کا توانائی نظام کیپیسٹی پیمنٹ کے مسائل کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں نیٹ میٹرنگ میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ تاہم، ملک کا توانائی کا نظام کیپیسٹی پیمنٹ کے مسائل میں پھنسا ہوا ہے۔
اسد علی نے کہا کہ نیٹ میٹرنگ کی تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد حکومت کے اس ہدف کو چیلنج کرتی ہے کہ وہ گرڈ سے زیادہ بجلی فروخت کرے۔
حالیہ برسوں میں پاکستان میں شمسی توانائی نے تیزی سے ترقی کی ہے، جہاں صرف 2024 میں اندازاً 22 گیگاواٹ کے سولر پینل درآمد کیے گئے، جس سے پاکستان خطے کی سب سے زیادہ امید افزا شمسی توانائی کی منڈیوں میں سے ایک بن گیا ہے۔
کراچی لٹریچر فیسٹیول (کے ایل ایف) میں خطاب کرتے ہوئے سینیٹر شیری رحمان نے پاکستان میں جاری شمسی انقلاب کو سراہا اور کہا کہ نیٹ میٹرنگ جیسی سازگار پالیسی نے اس تبدیلی کو ممکن بنایا ہے۔
دوسری جانب پاکستان کویت انویسٹمنٹ کمپنی (پرائیویٹ) لمیٹڈ کے ہیڈ آف ریسرچ سمیع اللہ طارق کا ماننا ہے کہ ٹیکس کے حالیہ فیصلے سے سولر صارفین پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہم پہلے ہی کراچی میں نیٹ یونٹس کے بجائے گراس یونٹس پر جی ایس ٹی ادا کر رہے تھے، لہذا جی ایس ٹی کے نفاذ سے سولر سسٹم لگانے کے خواہاں افراد نہیں رکیں گے۔
اسی طرح کے خیالات کا اظہار عارف حبیب لمیٹڈ (اے ایچ ایل) کے ہیڈ آف ایکویٹیز طاہر عباس نے بھی کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سولرائزیشن کی موجودہ رفتار جاری رہے گی کیونکہ ملک میں بجلی کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں۔
تاہم اگر حکومت ٹیرف میں کمی کرتی ہے تو یہ شمسی توانائی کو اپنانے کی رفتار کو سست کر سکتی ہے کیونکہ قومی گرڈ پر انحصار بڑھ جائے گا۔
Comments