جرمن عوام اتوار کے روز قومی انتخابات میں ووٹ ڈال رہے ہیں، جہاں توقع کی جا رہی ہے کہ فریڈرک مرز کی قدامت پسند جماعت دوبارہ اقتدار میں آئے گی اور انتہائی دائیں بازو کی جماعت آلٹرنیٹو فار جرمنی (اے ایف ڈی) اپنی تاریخ کے بہترین نتائج حاصل کرے گی، کیونکہ یورپ کی کمزور معیشت دائیں بازو جانب جھک رہی ہے۔
مرز کےسی ڈی یو/سی ایس یو بلاک نے مستقل طور پر رائے عامہ کے جائزوں میں برتری حاصل کی ہے، لیکن جرمنی کے منقسم سیاسی منظرنامے کے پیش نظر اس کے لیے اکثریت حاصل کرنا مشکل دکھائی دیتا ہے، جس کی وجہ سے اسے ممکنہ اتحادی جماعتوں سے مذاکرات کرنے ہوں گے۔
یہ مذاکرات پیچیدہ ہونے کی توقع ہے، کیونکہ انتخابی مہم کے دوران امیگریشن کے مسئلے سے نمٹنے کے طریقہ کار پر شدید اختلافات سامنے آئے ہیں، خاص طور پر ایسے ملک میں جہاں نازی ماضی کی وجہ سے انتہائی دائیں بازو کی سیاست پر سخت بدنامی کا داغ ہے۔
اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ غیر مقبول چانسلر اولاف شولز مہینوں تک نگران کردار میں رہیں گے، جس سے یورپ کی سب سے بڑی معیشت کو دو مسلسل سالوں کی کساد بازاری کے بعد بحال کرنے کے لیے فوری طور پر درکار پالیسیوں میں تاخیر ہو گی، جبکہ کمپنیاں عالمی حریفوں سے مقابلے میں مشکلات کا شکار ہیں۔
یہ یورپ کے مرکز میں قیادت کا خلا بھی پیدا کرے گا، ایسے وقت میں جب خطہ کئی چیلنجوں کا سامنا کر رہا ہے، بشمول امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجارتی جنگ کی دھمکیاں اور یوکرین کے لیے کسی یورپی شمولیت کے بغیر جنگ بندی معاہدے کو تیزی سے آگے بڑھانے کی کوششوں کے۔
جرمنی، جس کی معیشت برآمدات پر مبنی ہے اور جو طویل عرصے سے اپنی سیکیورٹی کے لیے امریکہ پر انحصار کرتا رہا ہے، خاص طور پر اس صورتحال میں کمزور دکھائی دیتا ہے۔
جرمن عوام اپنی زندگی کے معیار کے بارے میں 2008 کے مالیاتی بحران کے بعد سب سے زیادہ مایوسی کا شکار ہیں۔
رائے عامہ کے ادارے گیلپ کے مطابق، جو افراد یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی صورتحال بہتر ہو رہی ہے، ان کی شرح 2023 میں 42 فیصد تھی، جو 2024 میں تیزی سے کم ہو کر 27 فیصد رہ گئی ہے۔
امیگریشن کے بارے میں رویے بھی سخت ہو گئے ہیں، جو کہ 2015 کے یورپی امیگریشن بحران کے دوران جرمنی کی ”پناہ گزینوں کو خوش آمدید“ کی ثقافت کے مقابلے میں عوامی جذبات میں ایک گہری تبدیلی کی عکاسی کرتا ہے۔
Comments