ٹرمپ انتظامیہ نے ہفتے کی شام امریکی وفاقی حکومت کے ملازمین کو ای میلز بھیجیں، جن میں ان سے کہا گیا کہ وہ پچھلے ہفتے کے دوران اپنی کام کی کامیابیوں کی تفصیل پیر کی رات تک فراہم کریں، بصورت دیگر انہیں اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے۔

یہ ای میلز اس وقت بھیجی گئیں جب ایلون مسک، جو کہ ٹرمپ انتظامیہ کے ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشنسی ( ڈی او جی ای) کے سربراہ ہیں، نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر پوسٹ کیا کہ اس ای میل کا جواب نہ دینا استعفیٰ تصور کیا جائے گا۔

ایلون مسک نےایکس پر لکھا کہ تمام وفاقی ملازمین کو جلد ہی ایک ای میل موصول ہوگی، جس میں یہ پوچھا جائے گا کہ انہوں نے پچھلے ہفتے کیا کام مکمل کیا؟، جواب نہ دینے کو استعفیٰ سمجھا جائے گا۔

ایلون مسک نے یہ بیان اس وقت دیا جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا نیٹ ورک، ٹرتھ سوشل پر یہ پوسٹ کیا کہ ڈی او جی ای کو وفاقی ملازمتوں کو کم کرنے اور 2.3 ملین سے زائد سرکاری ملازمین کی تنظیم نو میں مزید جارحانہ اقدامات کرنے چاہئیں۔

ہفتے کی شام تک یہ ای میلز وفاقی اداروں کے ملازمین کو بھیجی گئیں، جن میں سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن، نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفیئرک ایڈمنسٹریشن، سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن اور دیگر ادارے شامل ہیں۔ ان ای میلز کا عنوان تھا ”آپ نے پچھلے ہفتے کیا کیا؟“

رائٹرز کے مطابق، اس ای میل میں ملازمین سے کہا گیا کہ وہ پانچ نکات کی صورت میں خلاصہ پیش کریں، جس میں گزشتہ ہفتے کے دوران کام میں حاصل کی گئی کامیابیوں کو بیان کریں اور اس کو اپنے منیجرز کو بھی بھیجیں۔

یہ ای میل دفتر برائے حکومتی عملہ ( او پی ایم) کے ایک ہیومن ریسورس ایڈریس سے بھیجی گئی، اور ملازمین کو پیر کی رات 11:59 بجے (ایسٹرن اسٹینڈرڈ ٹائم) تک جواب دینے کی ہدایت دی گئی۔

یہ واضح نہیں کہ ایلون مسک کو قانونی طور پر کیا اختیار حاصل ہے کہ وہ ان ملازمین کو برطرف کر سکے جو اس درخواست کا جواب نہیں دیتے، اور ان ملازمین کا کیا ہوگا جو اپنے خفیہ کام کی تفصیلات فراہم نہیں کر سکتے۔

کچھ وفاقی عدالتی ملازمین کو بھی ہفتے کے روز او پی ایم سے یہ ای میل موصول ہوئی، حالانکہ عدالتی نظام ایگزیکٹو برانچ کا حصہ نہیں ہے، کچھ ذرائع نے اس معاملے سے واقفیت ظاہر کی۔

امریکی عدالتوں کے ایڈمنسٹریٹو آفس، جو عدلیہ کی انتظامی شاخ ہے، نے اس بارے میں فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

کنزیومر فنانشل پروٹیکشن بیورو کے ملازمین کو بھی یہ ای میل موصول ہوئی، بعض واقف کار ذرائع کے مطابق۔ تاہم، اس ایجنسی کے بیشتر ملازمین کو اس مہینے کے اوائل سے کوئی کام کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا، جس کی وجہ سے یہ ایک پیچیدہ صورت حال بن گئی۔

یہ ادارہ فی الحال ایک عارضی عدالتی حکم کے تحت بھی ہے، جس کے مطابق بڑے پیمانے پر برطرفیوں پر قانونی کارروائی کے فیصلے تک پابندی عائد ہے۔

ڈی او جی ای کے ترجمان نے فوری طور پر اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔

یونین کی مزاحمت

امریکن فیڈریشن آف گورنمنٹ ایمپلائیز (اے ایف جی ای)، جو وفاقی ملازمین کی نمائندگی کرتی ہے، نے ایک بیان میں کہا کہ وہ کسی بھی ”غیر قانونی برطرفی“ کو چیلنج کرے گی۔

اے ایف جی ای کے صدرایورٹ کیلی نے کہا کہ ایک بار پھر، ایلون مسک اور ٹرمپ انتظامیہ نے وفاقی ملازمین اور ان کی فراہم کردہ اہم خدمات کے لیے اپنی مکمل بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ کی تیز رفتار اور متنازعہ پالیسی، جس کے تحت حکومتی اخراجات کم کرنے کے لیے وفاقی افرادی قوت کو محدود کیا جا رہا ہے، ایلون مسک اور ان کے نوجوان مشیروں کی سربراہی میں چل رہی ہے۔ یہ پالیسی بدنظمی کا شکار ہے اور اس کے باعث ایسی غیر ارادی برطرفیاں ہوئیں جن کی وجہ سے کئی ادارے جلدی میں اہم ملازمین کو دوبارہ بھرتی کرنے پر مجبور ہو گئے، جن میں جوہری سلامتی، دفاع، اور بجلی کی پیداوار سے وابستہ کارکنان شامل ہیں۔

پہلی لہر کی برطرفیوں میں ان ملازمین کو نشانہ بنایا گیا جو برطرف کیے جانے کی فہرست میں آسانی سے آ سکتے تھے، جیسے کہ وہ افراد جو دو سال سے کم عرصے سے ملازمت پر تھے یا وہ جو کسی ایجنسی میں نئے کردار میں شامل ہوئے تھے۔

بلا تفریق برطرفیوں کے نتیجے میں ڈی او جی ای نے ان ملازمین کو بھی نکال دیا، جن کی تنخواہیں ٹیکس دہندگان کے فنڈز سے نہیں دی جاتیں، جس کی وجہ سے ملک بھر میں عوام میں شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے، کیونکہ لوگ وفاقی ملازمتوں میں کمی کے اثرات سے پریشان ہیں۔

ٹرمپ نے کئی بار ایلون مسک کو ڈی او جی ای کا اصل رہنما قرار دیا ہے، حالانکہ یہ کابینہ کی سطح کا محکمہ نہیں ہے۔ تاہم، وائٹ ہاؤس نے اس مہینے ایک عدالتی دستاویز میں کہا کہ ایلون مسک کو ڈی او جی ای پر کوئی اختیار حاصل نہیں اور وہ اس پروگرام کے ملازم بھی نہیں ہیں۔

کچھ وفاقی اداروں نے اپنے ملازمین کو اضافی ای میلز بھیج کر مشورہ دیا کہ وہ اس ای میل کا جواب نہ دیں جب تک کہ وہ اس کی صداقت کی تصدیق نہ کر لیں اور اس کے ردعمل کے لیے کوئی طریقہ کار نہ بنا لیں۔

ین او اے اے کے ملازمین کو بھیجی گئی ایک ای میل میں کہا گیا، جسے رائٹرز نے دیکھا کہ واضح رہے، یہ ایک غیر معمولی اور غیر متوقع واقعہ ہے اور اس کے جواز کے لیے انتظامیہ سے مزید تصدیق ضروری ہے۔

امریکی اٹارنیز کے ایگزیکٹو آفس نے بھی اپنے ملازمین کو ایک ای میل بھیجی، جس میں کہا گیا کہ جب تک ای میل کی صداقت کی تصدیق نہیں ہو جاتی، اس کا جواب دینے سے گریز کریں۔

کچھ وفاقی ملازمین، جو پہلے ہی دو ہفتوں کی بڑے پیمانے پر برطرفیوں کے بعد دباؤ میں تھے، نے اس ای میل پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔

ایک وفاقی ایجنسی کے ملازم نے غصے میں کہا کہ دو دہائیوں سے زیادہ وفاقی خدمات انجام دینے کے بعد، جس میں تمام کارکردگی کے جائزے شاندار رہے ہیں اور تقریباً 18 کارکردگی کے ایوارڈز حاصل کیے ہیں، اب او پی ایم کا کوئی شخص میرے پانچ نکات پڑھ کر فیصلہ کرے گا کہ میں کام کے لیے موزوں ہوں یا نہیں؟۔

Comments

200 حروف