قوم ایک ایسے مخمصے میں پھنس چکی ہے جہاں اسے ملک کے نازک مالیاتی ڈھانچے کو برقرار رکھنے کے لیے مسلسل قرضے لینے کی جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اہم ساختی اصلاحات نافذ کرنے کی کوشش بھی کرنی ہے۔ قرضے لینے کی لت اصلاحات کرنے کے عزم سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔
یہ طرز عمل پاکستان کے وزیر خزانہ کا کام سب سے مشکل بنا دیتا ہے کیونکہ انہیں قرض دہندگان سے پیسے حاصل کرنے ہیں، اورقرض لینے کا یہ عمل اس بات کی کوئی واضح علامت نہیں دکھاتا کہ اس کا خاتمہ کب اور کیسے ہوگا۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے خبردار کیا ہے کہ ہم ایک ملک کے طور پر اپنی ساکھ کھو چکے ہیں اور اعتماد کی بحالی کے لئے فوری معاشی اصلاحات کی ضرورت ہے۔
وزیر موصوف کے اس بیان کے نتائج برآمد ہوں گے اور یہ اس تلخ حقیقت کی عکاسی کرے گا کہ اصلاحات کے نفاذ کے کام میں اخلاص کا فقدان ہے۔ آئی ایم ایف کی ایک ٹیم کا حالیہ دورہ ملک کے انتظامی ڈھانچے، عمل اور نظام کا جائزہ لینے سے ساکھ کے فرق کا پتہ چلتا ہے۔
سینیٹ کی موسمیاتی تبدیلی کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے قانون سازوں کو ملک میں موسمیاتی فنانسنگ کے چیلنجز اور بین الاقوامی قرض دہندگان کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں آگاہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) نے 500 ملین ڈالر کا وعدہ کیا ہے جبکہ پاکستان کو آئندہ ہفتے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے ایک ارب ڈالر ملنے کی توقع ہے اور حکومت مزید سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لئے گرین پانڈا بانڈ جاری کرنے پر بھی کام کر رہی ہے۔
وزیر خزانہ نے ٹیکس پالیسی میں بڑی تبدیلی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اب وزارت خزانہ ٹیکس پالیسی کی نگرانی کرے گی جبکہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) صرف ٹیکس وصولی پر توجہ دے گا۔
وزارت خزانہ نے رواں ہفتے ایک چونکا دینے والے انکشاف میں بتایا تھا کہ مالی سال 24-2023 کے دوران سرکاری اداروں (ایس او ایز) کا مجموعی خسارہ 851 ارب روپے اور ان کے مجموعی قرضے 9.2 ٹریلین روپے رہے جو ایف بی آر کے محصولات کے تقریباً برابر ہیں۔
بجلی کے شعبے میں ایس او ایز مجموعی طور پرسر فہرست ہیں، جس سے قومی خزانے اور معیشت کو نقصان پہنچا ہے، حالانکہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) نے انفرادی طورپر سب سے زیادہ 295.5 ارب روپے کا نقصان رپورٹ کیا ہے۔ ان اداروں نے مجموعی طور پر ملک کی معیشت کو تقریباً ڈھائی کھرب روپے کا نقصان پہنچایا ہے۔
مالی سال 24 ء میں ان کی مجموعی آمدن 5.26 فیصد اضافے کے ساتھ 13.5 کھرب روپے تک پہنچ گئی جبکہ مجموعی خالص نقصانات میں تقریباً 89 فیصد یا 30.65 ارب روپے کا اضافہ ہوا تاہم حکومت کی جانب سے سبسڈیز اور گرانٹس وغیرہ کے ذریعے ان کے مجموعی نقصانات میں 14 فیصد کمی کی گئی۔
کچھ منافع کمانے والے ایس او ایز بھی ہیں۔ قابل ذکر طور پر ان میں او جی ڈی سی ایل 208 ارب روپے منافع کمانے والی سرفہرست ہے کمپنی ہے، اس کے بعد پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ 115.4 ارب روپے، نیشنل پاور پارکس 76.8 ارب روپے اور پی ایس او 19.6 ارب روپے منافع کے ساتھ با الترتیب پہلے، دوسرے اورتیسرے نمبر پر ہیں۔ اچھے وقتوں (برسوں) میں کارپوریٹ سیکٹر اور کارپوریٹ گورننس کے تحت او جی ڈی سی ایل، پی ایس او، پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ، سوئی سدرن اور ناردرن گیس کی کمپنیوں نے ملک کی اسٹاک مارکیٹ میں بلیو چپس کے طور پر کاروبار کیا ہے۔
آئی ایم ایف پروگرام کے تقاضوں کے تحت وزارت خزانہ میں سینٹرل مانیٹرنگ یونٹ (سی ایم یو) قائم کیا گیا ہے تاکہ تمام ایس او ایز کی کارکردگی اور بجٹ پر ان کے اثرات پر نظر رکھی جاسکے تاکہ حکومت انہیں مرحلہ وار نجی شعبے میں منتقل کرنے یا انہیں بند کرنے میں سہولت فراہم کرسکے۔
سی ایم یو نے اپنی رپورٹ میں سرکاری اداروں (ایس او ایز) کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں غیر پیشہ ورانہ اور غیر آزاد ممبروں کی غیر متناسب موجودگی اور ان تنظیموں میں موثر آڈٹ اور مانیٹرنگ میکانزم کی عدم موجودگی کی مذمت کی ہے۔
سی ایم یو نے گورننس کی کمزوریوں اور قوم کو ہونے والے مالی نقصانات کو دور کرنے کے لئے بین الاقوامی مالیاتی اور آڈٹ معیارات کو اپنانے کی تجویز دی ہے۔
سی ایم یو نے ایس او ایز کی کارکردگی کے تجزیے میں کہا ہے کہ بدقسمتی سے بہت سے ایس او ایز میں اب بھی غیر آزاد ڈائریکٹرز کی غیر متناسب تعداد موجود ہے، خاص طور پر بجلی، انفرااسٹرکچر اور گیس جیسے اہم شعبوں میں۔
رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ اس عدم توازن کے نتیجے میں اندرونی نقطہ نظر کا غلبہ ہے جہاں انتظامیہ کا اثر و رسوخ بے قابو رہتا ہے اور احتساب کے فقدان کی وجہ سے ایس او ایز کی طویل مدتی افادیت والے اہم فیصلوں پر قلیل مدتی یا مخصوص اسٹیک ہولڈر گروپوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔
قوم کو درپیش مالی اور معاشی مسائل اندرونی اور خود ساختہ ہیں۔ ان کا حل بھی اندرونی ہونا چاہیے۔ آغاز اچھے طرز حکمرانی سے ہونا چاہیے، جو سیاسی مفادات، بدعنوانی اور نااہلی سے بالاتر ہو۔
پاکستان جیسے بہت سے ممالک نے وقت کے ساتھ ساتھ ایسے چیلنجز کا سامنا کیا ہے اور بالآخر اپنے گھر کو ترتیب دیا ہے۔ اب انہیں دنیا کی سب سے تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشتوں میں سے ایک کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔
انڈونیشیا ایک ایسا ملک ہے جس نے کئی برسوں تک سیاسی افراتفری، آمرانہ حکومتوں اور بڑے پیمانے پر حکمرانی کے مسائل کا سامنا کیا لیکن آخر کار اس کی سیاسی قیادت نے عوام کے لئے خوشحالی کی اہمیت کو تسلیم کیا اور اپنے عوام کے عزم و حوصلے کے ساتھ اپنے گھر کو منظم کیا.
آج انڈونیشیا جی 20 کلب کا حصہ ہے اور دنیا کی بہترین 20 ترقی پذیر اور اچھی طرح سے منظم معیشتوں میں سے ایک تسلیم کیا جاتا ہے. انڈونیشیا کے بارے میں بڑے پیمانے پر قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ وہ آنے والے وقت میں سات امیر جمہوریتوں کے گروپ کی حیثیت تک پہنچ جائے گا کیونکہ ملک اپنے بڑھتے ہوئے متوسط طبقے، نوجوان آبادی اور وافر وسائل کے ساتھ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کر رہا ہے۔
پاکستان کے پاس بھی انسانی صلاحیتیں، دماغی طاقت اور وسائل موجود ہیں جو دنیا کی صف اول کی معیشتوں کا حصہ بن سکتا ہے۔ قوم کو بس اپنا کام یک جان ہوکر کرنا ہے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025
Comments