مالی ضروریات: حکومت بینک منافع پر ٹیکس بڑھانے کے لیے پرعزم ہے، سینیٹ کمیٹی
سینیٹ سیکریٹریٹ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و ریونیو کو بتایا گیا کہ حکومت اپنی مالی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بینک منافع پر ٹیکس بڑھانے کے لیے پرعزم ہے۔
یہ بات وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں کمیٹی کے اجلاس میں کہی۔
اعلامیے کے مطابق کمیٹی نے اہم مالیاتی اور تجارتی امور بشمول ٹیکس اصلاحات، منی بلز اور سرحدی تجارت کے انتظام میں کسٹمز ڈپارٹمنٹ کو درپیش چیلنجز پر تبادلہ خیال کیا۔
اجلاس کے دوران فیڈرل بیورو آف ریونیو (ایف بی آر) کے چیئرمین راشد محمود لنگڑیال نے کہا کہ بینکوں نے 31 دسمبر تک ایڈوانس ٹو ڈپازٹ تناسب کی حد برقرار رکھنے میں ناکامی کی وجہ سے رواں سال اضافی 70 ارب روپے ٹیکس وصول کیے۔
سینیٹر شبلی فراز نے نشاندہی کی کہ جنوری 2025 میں 440 ارب روپے بینکوں کو واپس کیے گئے۔
سینیٹ کے اعلامیے کے مطابق وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم حکومت کی مالی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بینک منافع پر ٹیکس بڑھانے کے لیے پرعزم ہیں۔
اورنگ زیب نے کہا کہ بینکوں کو حکومت کی مدد کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔
سرحدی تجارت
وزیر خزانہ نے ایران پاکستان سرحد پر ٹرکوں کی بھیڑ کے معاملے پر بھی جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت 600 ٹرک پھنسے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے بلوچستان میں بڑی تاخیر اور بے روزگاری ہے۔
سینیٹر منظور کاکڑ نے اجلاس میں حکومت پر زور دیا کہ وہ اس مسئلے کو فوری طور پر حل کرے، ان رکاوٹوں کی وجہ سے ہزاروں افراد بے روزگار ہوگئے ہیں۔
پاکستان اور ایران کے درمیان تجارت کے حوالے سے کمیٹی نے 2023 میں شروع ہونے والی بارٹر ٹریڈ کی پیچیدگیوں کا جائزہ لیا۔
بیان کے مطابق کسٹم حکام نے نشاندہی کی کہ بارٹر معاہدے کے تحت صرف ایرانی ساختہ مصنوعات کی اجازت تھی لیکن تاجر ایران میں لگژری اشیا درآمد کر رہے تھے اور پھر انہیں پاکستان برآمد کر رہے تھے۔
انوشہ رحمان نے اصلاحات کی فوری ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ تجارت کو چلانے والے ایس آر او (آئینی ریگولیٹری آرڈر) پر عمل کرنا مشکل ہے اور اسے زیادہ عملی بنانے کی ضرورت ہے۔
تجارتی نمائندوں نے کسٹم کے طریقہ کار پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ ایک تاجر نے کمیٹی کو بتایا کہ برآمدات سے بھرے 40 ٹرک روزانہ ایران جاتے تھے۔ اب اشرافیہ کی رکاوٹوں کی وجہ سے تجارت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ ایس آر او کو آسان بنایا جانا چاہئے اور ہموار تجارتی بہاؤ کو آسان بنانے کے لئے واضح طریقہ کار پر زور دیا۔
منی بل
دریں اثناء سلیم مانڈوی والا نے منی بل کے لیبل والے بلوں پر بحث کو اجاگر کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے ہمیں بتایا کہ اسپیکر نے اسے منی بل قرار دیا ہے لیکن جب میں نے اسپیکر قومی اسمبلی سے بات کی تو انہوں نے اس طرح کا لیبل لگانے سے انکار کیا۔
کمیٹی نے منی بلز سے نمٹنے میں سینیٹ کے اختیارات پر بھی تبادلہ خیال کیا، سلیم مانڈوی والا نے اس بات پر زور دیا کہ اگرچہ سینیٹ ایسے بلوں پر غور کر سکتی ہے، لیکن اس کے پاس ان پر ووٹ دینے کا اختیار نہیں ہے۔
سلیم مانڈوی والا نے وضاحت کی کہ قانون کے مطابق اگر سینیٹ میں کسی بل کو منی بل قرار دینے کے حوالے سے اختلاف پایا جاتا ہے تو اس کا حتمی فیصلہ اسپیکر قومی اسمبلی کریں گے۔
سینیٹر شبلی فراز نے اس خیال کی حمایت کرتے ہوئے تجویز دی کہ اس معاملے کی وضاحت کے لیے وزارت قانون کی رائے لی جانی چاہیے۔
Comments