بے جوڑ۔ اجنبی۔ ہم آہنگی سے محروم۔ یہ وہ یادیں ہیں جو ذہن میں بس جاتی ہیں۔ یہ وہ لمحات ہیں جو تکلیف دیتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہیں جو دل کو چبھتے ہیں۔ ایسے احساسات بہت پرانے ہوتے ہیں۔ اسکول کے دنوں میں، شاید کسی خاص استاد کے ساتھ۔
کسی خاندانی تقریب میں، جب آپ خود کو تنہا محسوس کریں۔ کسی سالگرہ پر، جب آپ سب سے الگ تھلگ ہوں۔ کسی رشتے میں، جہاں آپ دو تھے مگر پھر بھی اکیلے تھے۔ کسی محفل میں، جہاں آپ کو لگا کہ آپ یا تو بہت بڑے ہیں، یا بہت چھوٹے، یا بہت ”دیسی“، یا بہت ”سادہ“، یا بہت ”چمکدار“۔
کسی دفتر میں، جہاں آپ کے ارد گرد بہت سے ساتھی تھے، مگر آپ پھر بھی اجنبی سا محسوس کرتے تھے۔ نہ اپنانے کا احساس ایک جذباتی کینسر کی طرح ہوتا ہے۔ یہ آپ کو اندر سے کھا جاتا ہے۔ یہ آپ کو تنہا کر دیتا ہے۔ یہ آپ کو بے یار و مددگار بنا دیتا ہے۔ یہ آپ کی خودی کو مٹا دیتا ہے۔ اور جب یہ تنہائی بڑھتی ہے، تو یہ آپ کی صلاحیتوں، مہارتوں اور پیداواری قوت کو ختم کر دیتی ہے، جس سے ذہنی دباؤ اور ڈپریشن کے دروازے کھل جاتے ہیں۔
یہ اپنائیت کی ضرورت کیا ہے؟ اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے نفسیات کے پروفیسر ڈاکٹر جیوفری کوہن کہتے ہیں ہم ایک سماجی نوع کے طور پر اس بات کے لیے انتہائی حساس ہیں کہ آیا ہم اپنے گروہ، اپنے قبیلے، اپنے خاندان، اور یہاں تک کہ اپنے خیالی رشتہ داروں کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں یا نہیں۔ یہ اپنائیت کی ضرورت پیدائش سے ہی موجود ہوتی ہے۔
بچوں کے رویے یا نافرمانی کا تعلق اس بات سے ہوتا ہے کہ وہ مختلف گروہوں میں قبولیت، ہم آہنگی اور حوصلہ افزائی محسوس کرتے ہیں یا نہیں۔ اور یہ ضرورت زندگی بھر چلتی رہتی ہے، جب تک کہ ہم مختلف اداروں اور گروہوں کا حصہ بنتے ہیں۔ آج کل اداروں میں قابلیت کی تلاش کو بہت اہمیت دی جاتی ہے، مگر ثقافتی ہم آہنگی کو ترجیحات میں کہیں پیچھے چھوڑ دیا جاتا ہے۔
یہ ثقافتی ایڈجسٹمنٹ اتنی اہم ہے کہ یہاں تک کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں میں بھی ہیڈ آفس کی ثقافت حاوی رہتی ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب کوئی ملازم کسی یورپی کمپنی سے امریکی کمپنی میں منتقل ہوتا ہے تو وہ خود کو غیر متعلقہ محسوس کرتا ہے۔
یہ سوال جنم لیتا ہے کہ جب ہر جگہ کمپنیوں میں مثبت ماحول اور سازگار ثقافت پیدا کرنے کی بات ہو رہی ہے، تو پھر بھی بہت سے ملازمین کو ایسا کیوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ جگہ ان کے لیے نہیں؟
کچھ کمپنیاں اسے مثبت کلچر بنانے کا نام دیتی ہیں، تو کچھ اسے خوشگوار ماحول کہتی ہیں۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا آپ کی کمپنی میں کام کرنے والے افراد واقعی اپنے آپ کو اس ماحول کا حصہ سمجھتے ہیں؟
ایک ایسا دفتری ماحول بنانے کے لیے جہاں لوگ خود کو اجنبی محسوس نہ کریں، ایک اپنائیت کی ثقافت کی تشکیل ضروری ہے۔
اس کے لیے درج ذیل اقدامات کیے جا سکتے ہیں:
1 -اپنائیت کے جذبات کا تجزیہ— وہ کون سے احساسات ہیں جو لوگوں کو دفتر میں گھر جیسا محسوس کراتے ہیں؟ لوگ گھر میں کیسا محسوس کرتے ہیں؟ آرام دہ، محفوظ، محبت سے بھرپور اور حمایت یافتہ۔ اگر یہی احساسات ہیں جو لوگوں کو اپنے گھروں کی یاد دلاتے ہیں، تو کیا انہیں دفتر میں بھی پیدا کیا جا سکتا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو کمپنیوں کو اپنے ملازمین سے پوچھنے چاہئیں تاکہ وہ اپنے ادارے کی ثقافتی ہم آہنگی کا اندازہ لگا سکیں۔ گھر جیسا سکون ہر فرد کے لیے مختلف ہو سکتا ہے۔ ہر ملازم جس نظر سے اسے دیکھتا ہے، اسے سمجھنا اور طے کرنا ضروری ہے۔ بہت سی کمپنیاں سمجھتی ہیں کہ وہ ملازمین کے آرام پر کام کر رہی ہیں۔ وہ بنیادی ڈھانچے کی سہولتوں میں سرمایہ کاری کرتی ہیں، جیسے کہ کافی ہینگ آؤٹس، چھوٹے ریستوران، جم اور یہاں تک کہ دیر تک کام کرنے والے ملازمین کے لیے ہیئر سیلون بھی فراہم کرتی ہیں۔ یہ سب شاندار اور ضروری اقدامات ہیں۔ لیکن کیا یہ کافی ہیں؟ نہیں۔ فزیکل سہولتوں کے ساتھ ساتھ جذباتی سکون بھی فراہم کرنا ضروری ہے۔کیا لوگ بڑے اور شاندار دفتری کمروں میں بیٹھ کر بھی گھٹن محسوس کر رہے ہیں؟ کیا وہ جدید جم کے ٹریڈمل پر دوڑ رہے ہیں لیکن انہیں ایسا لگ رہا ہے جیسے وہ کہیں نہیں جا رہے؟ یہی وہ تشخیص ہے جو کی جانی چاہیے۔ بہت سی تنظیمیں خواتین ملازمین کے لیے پارکنگ کی جگہیں اور ڈے کیئر مراکز فراہم کرنے میں بڑی محنت کرتی ہیں، لیکن انہیں قیادت میں آگے بڑھنے کے مواقع دینے اور بورڈ رومز میں جگہ فراہم کرنے کو نظر انداز کر دیتی ہیں۔ اپنائیت کے احساس کو جانچنے کے لیے سال میں دو مرتبہ سروے کرایا جانا چاہیے تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ کمپنی میں ملازمین کا ادارے کے ساتھ تعلق اور جذباتی وابستگی کتنی ہے یا کہیں وہ خود کو الگ تھلگ محسوس تو نہیں کر رہے۔
2 -بنیادی اقدار جو اپنائیت کو جنم دیتی ہیں— تو وہ کون سی بنیادی اقدار ہیں جو ایک ملازم کو اپنے دفتر سے جوڑتی ہیں؟ انسان کی بنیادی خواہشات اس کی انفرادیت کو قبول کیے جانے سے پیدا ہوتی ہیں۔پہلی اور سب سے اہم چیز شناخت ہے۔ ملازمین چاہتے ہیں کہ انہیں پہچانا جائے، ان کی موجودگی کو تسلیم کیا جائے۔ جب کسی کو یہ احساس ہو کہ وہ موجود ہوتے ہوئے بھی موجود نہیں، تو یہ اس کے اندر شناخت کا بحران پیدا کر دیتا ہے۔ سوچیں، کتنا شاندار محسوس ہوتا ہے جب آپ کے استاد یا کسی اعلیٰ عہدے پر فائز شخص آپ کو برسوں بعد دیکھ کر آپ کا نام لے کر مخاطب کرے۔ یہ شناخت کی تصدیق ہوتی ہے۔ دوسری اہم ضرورت شامل کیے جانے کی ہے۔ جب کسی جونیئر ملازم سے محکمہ سربراہ یہ پوچھتا ہے کہ اس کی رائے میں کیا کرنا چاہیے، تو یہ لمحہ اس کے لیے یادگار بن جاتا ہے۔ کسی عمل، کہانی یا ٹیم کا حصہ بننے کی خواہش، اور اپنی رائے کا اظہار کرنے کا موقع ملنا انمول ہوتا ہے۔ ایک اور بنیادی قدر اعتماد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ملازمین کو یہ احساس ہو کہ انہیں اپنے طریقے سے کام کرنے کا اختیار حاصل ہے، اور کوئی غیر ضروری مداخلت نہیں ہوگی۔ جب کسی پر بھروسا کیا جاتا ہے تو یہی وہ واحد راستہ ہے جو کسی ادارے میں اپنائیت اور ملکیت کے احساس کو بڑھا سکتا ہے۔ ایک اور اہم جذبہ کسی بڑے مقصد کا حصہ بننے کا احساس ہے۔ اگر ملازمین کو یہ نظر آئے کہ ان کا کام کسی وسیع تر مقصد میں معاون ہے، تو انہیں لگے گا کہ وہ واقعی کوئی بامقصد کام کر رہے ہیں۔
3 -اپنائیت کے رویوں کو ادارہ جاتی بنانا— اصل چیلنج صرف کچھ لوگوں کو اپنائیت کا احساس دلانا نہیں بلکہ اسے تنظیم کی مجموعی ثقافت میں شامل کرنا ہے۔ اسی لیے سب سے پہلے ان رویوں کو واضح کرنا ضروری ہے۔ دوسرا، انہیں اوپر سے نیچے تک پہنچایا جائے۔ تیسرا، ان پر مبنی کارکردگی کے تجزیے کا ایک منظم طریقہ کار تیار کیا جائے۔چنانچہ ادارے کو مینیجرز کے لیے ایک معیاری ”ون ٹو ون“ ملاقاتوں کا نظام تشکیل دینا ہوگا تاکہ وہ اپنی ٹیموں کو بہتر طریقے سے جان سکیں۔ ہر فرد کے بارے میں، اس کے پس منظر، کامیابیوں اور مشکلات کو سمجھنے کی ضرورت ہوگی۔ اچھے کام کو تسلیم کرنا اور ادارہ جاتی سطح پر اس کا جشن منانا ضروری ہے۔ ادارے کو ایسا طریقہ کار وضع کرنا ہوگا جس میں ہر مینیجر سب سے نچلے درجے کے ملازم کو کمپنی کے بڑے اہداف سے جوڑ سکے۔ زرا تصور کریں کہ کسی چپراسی کی حوصلہ افزائی اور اپنائیت کا احساس کس قدر بڑھ جائے گا اگر اسے یہ سمجھایا جائے کہ جو مہمان آ رہا ہے وہ کتنا اہم ہے، اور وہ جو سروس اور کافی پیش کرے گا وہ معاہدے کے فیصلے پر اثر ڈال سکتی ہے۔
آج کل دفاتر کے شاندار ڈیزائن اور بیرونی ساخت پر بہت زیادہ توجہ دی جاتی ہے، لیکن اندرونی سطح پر ملازمین کے رویوں میں دوری اور اجنبیت کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ کسی مینیجر کے لکھے ہوئے رسمی خوش آمدیدی نوٹ کا کوئی فائدہ نہیں جب تک کہ دفتر میں بیٹھے لوگوں کی زبان غیر دوستانہ ہو۔ ”3ڈبلیوز فارمولا“—گرم جوشی، خوش آمدید اور قابلِ قدر ہونے کا احساس— یہی وہ جذباتی قوت ہے جو لوگوں کو ادارے میں جوڑ کر رکھنے اور انہیں اپنی بہترین صلاحیتوں کے اظہار پر آمادہ کرتی ہے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025
Comments